پاکستان



انسائکلو پیڈیا آف پاکستان
·                               Home
·                               دنیائے عالم
·                               پاکستان
http://img1.blogblog.com/img/icon18_wrench_allbkg.png
 قارئین و ناظرین سے التماس

انسائکلو پیڈیا آف پاکستان چونکہ اس وقت ایڈیٹنگ کے مراحل سے گزر رہا ہے اس لیئے اس میں لمحہ بہ لمحہ اضافے ہو رہے ہیں  اضافوں تنسیخ  و تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اس لِئے کسی بھی شعبے کا بارے میں نامکمل معلومات کو حتمی نہ سمجھا جائے بلکے توقف کیا جائے اور انسائکلو پیڈیا آف پاکستان کے بلاگ کا دوبارہ جائزہ لیا جائے ہوسکتا ہے دوبارہ اس کمی کو دور کرکے نئے  مواد کے اضافے کے ساتھ آپ  درست معلومات تک رسائی حاصل کرلیں



کتاب  شریف خاندان نے پاکستان کیسے لوٹا:
 اب آپ کے اپنے شہر میں مندرجہ زیل  بک اسٹورز پر دستیاب ہیں 
کراچی ویلکم بک اردو بازار  ایم اے جناح روڈ
لاہور۔۔۔۔۔ مکتبہ تعمیر انسانیت ۔ اردو بازار 
لاہور۔۔۔۔۔ بک ہوم  اردو بازار
لاہور۔۔۔۔۔حق پبلیکیشن مزنگ روڈ
براہ راست حاصل کرنے کے لیئے  رابطہ قائم کریں
092-03452104458
092-03062296626
NAWAZ SHARIF RAIWIND
Address:  sharifpalace.blogspot.com
 پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
 Addressکے دفاعی اداروں کے بارے میں جانیے
ISI Pakistan Inter-Services Address
isi-pakistan-research.blogspot.com
برادراسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھیے
Address: uae search.blogspot.com

پاکستان:
          پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے ویب سائٹ-
             pakistanresearch.blogspot.com دیکھیے
آصف علی زرداری

آغاخانی
آغا خان اول
آغاخان دوم
آغاخان سوم
آغاخان چہارم
                                                  
احمد پور
ایران
افغانستان
انڈونیشیا
استنبول
اقوام متحدہ
اریٹیریا
اسرائیل
اردن
الجزائر
اتلی



                                                        „ 
ó   اردو۔    
   پاکستان کی قومی زبان ہے  جو پاکستان  کے تمام ہی علاقں میں سمجھی 
                                اور   رابطے کی زبان ہے
اردو
عربی_رسم_الخط میں لفظ اردو اعراب کے ساتھ (
URDUARAB.PNG
[ˈʊrd̪uː]
مستعمل
خطہ
کل مکلمین
6 کروڑ واطن مکلمین (2007)کلیتاً 18 کروڑ (2007[متنازع – تبادلۂ خیال]
19–21 (واطن مکلمین)، اطالوی اور ترکی سے قریباً برابری[متنازع – تبادلۂ خیال]
·                     ہند ایرانی
o                                            ہند آریائی
§                                                                     مرکزی ہند-آریائی
§                                                                                             مغربی ہندی[1]
§                                                                                                                     کھڑی بولی
§                                                                                                                                             اردو
باضابطہ حیثیت
باضابطہ زبان
پاکستان کا پرچم پاکستانبھارت کا پرچم بھارت (5 ریاستیں)فجی کا پرچم فجی
رموزِ زبان
ur
urd
یادآوری: اس صفحے پر یکرمز میں IPA کی صوتی علامات استعمال ہوسکتی ہیں۔

اُردو(انگریزی:
Urdu)، ہند-یورپی لسانی خاندان کے ہند-ایرانی شاخ کی ایک ہند-آریائی زبان ہے. اِس کی اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے دوران ہند زبانوں پر فارسی، عربی اور ترکی کی اثر سے ہوئی۔
اُردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دُنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے.
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے. کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں. تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں.
فہرست
·                     1 بولنے والے اور جُغرافیائی پھیلاؤ
o                                            1.1 ممالک جہاں اُردو اصل بولنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں:
·                     2 دفتری حیثیت
·                     3 دیگر متعلقہ صفحات
·                     4 بیرونی روابط
·                     5 حوالہ جات

                           بولنے والے اور جُغرافیائی پھیلاؤ
معیاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے. ایس.آئی.ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے. لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے: دُنیا کی دس بڑی زبانیں، میں اُردو اور ہندی چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کُل آباد کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔
اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانیت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں. درحقیقت، ماہرینِ لسانیات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں. لوگ جو اپنے آپ کو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے، اور اِسی طرح اِس کے برعکس۔
اُردو کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں میں اعلٰی ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کردیئے ہیں جن کی زبان
 پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے. اُردو پاکستان کی مُشترکہ زبان ہے اور یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کررہی ہے۔ اُردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اُردو کہلاتی ہے. یہ اَمر زبان کے بارے میں رائے تبدیل کررہی ہے جیسے اُردو بولنے والا وہ ہے جو اُردو بولتا ہے گو کہ اُس کی مادری زبان کوئی اَور زبان ہی کیوں نہ ہو. علاقائی زبانیں بھی اُردو کے الفاظ سے اثر پارہی ہیں. پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں. پانچ ملین افغان مہاجرین، جنہوں نے پاکستان میں پچیس برس گزارے، میں سے زیادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں. وہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ پاکستان میں اُردو اخباروں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے جن میں روزنامۂ جنگ، نوائے وقت اور ملّت شامل ہیں۔
بھارت میں، اُردو اُن جگہوں میں بولی اور استعمال کی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیتی آباد ہیں یا وہ شہر جو ماضی میں مسلمان حاکمین کے مرکز رہے ہیں۔ اِن میں اُتر پردیش کے حصے (خصوصاً لکھنؤ)، دہلی، بھوپال، حیدرآباد، بنگلور، کولکتہ، میسور، پاٹنا، اجمیر اور احمد آباد شامل ہیں. کچھ بھارتی مدرسے اُردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں، اُن کا اپنا خاکۂ نصاب اور طریقۂ امتحانات ہیں۔ بھارتی دینی مدرسے عربی اور اُردو میں تعلیم دیتے ہیں. بھارت میں اُردو اخباروں کی تعداد 29 سے زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیاء سے باہر اُردو زبان خلجِ فارس اور سعودی عرب میں جنوبی ایشیائی مزدور مہاجر بولتے ہیں۔ یہ زبان برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، ناروے اور آسٹریلیاء میں مقیم جنوبی ایشیائی مہاجرین بولتے ہیں۔
                            ممالک جہاں اُردو اصل بولنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں:
·           پاکستان (10,800,000 [1993], 7%)
·           بھارت (51,536,111 [2001], 5.1%)
·           مملکتِ متحدہ (747,285 [2001], 1.3%)
·           بنگلہ دیش (650,000, 0.4%)
·           متحدہ عرب امارات (600,000, 13%)
·           سعودی عرب (382,000, 1.5%)
·           نیپال (375,000, 1.3%)
·           ریاست ہائے متحدہ امریکہ (350,000, 0.1%)
·           افغانستان (320,000, 8%)
·           جنوبی افریقہ (170,000 جنوب ایشیائی مسلمان, جن میں سے کچھ اُردو بول سکتے ہیں)
·           کینیڈا (156,415 [2006], 0.5%)
·           عمان (90,000, 2.8%)
·           بحرین (80,000, 11.3%)
·           ماریشس (74,000, 5.6%)
·           قطر (70,000, 8%)
·           جرمنی (40,000)
·           ناروے (29,100)
·           فرانس (20,000)
·           سپین (18,000 [2004])
·           سویڈن (10,000 [2001])
·           کُل عالمی: 60,503,578
درج بالا فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اُردو بولنے والوں کی زیادہ تعداد جنوبی ایشاء کی بجائے چھوٹے عرب ریاستوں (متحدہ عرب امارات، بحرین) میں ہے، جہاں اُن کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ اِس کی وجہ وہاں پر پاکستان اور بھارتی تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد ہے۔
 انگریزی۔    پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ جو پاکستان کے سرکاری اداروں اور عدالتوں  کار سرکار میں استعمال کی جاتی ہے









انسائکلو پیڈیا آف پاکستان میں جہاں جہاں صرف عنوانات ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سلسلے میں معلومات  اور تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے جلد ہی ان معلومات کو  انسائکلو پیڈیا آف پاکستان  کے صفحات پر پیش کردیا جائے گا
                             

                                                  بگٹی قبیلہ



 
۔اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب سرزمین بلوچستان میں صفحہ نمبر 159 پر ۔ بگٹی قبیلے کے بار ے میں لکھتے ہیں کہ بگٹی علاقہ کے شمال میں مری اور گورچانی ، جنوب میں سندھ کا سرحدی بالائی ضلع ، مشرق میں پنجاب کی سرحد اور مغرب میں قلات (سابق ریاست ) کا صوبہ کچھی ہے (ماضی میں ہمسائے قبیلوں ، ڈومبکی،جھکرانی، مری ، اور مزاری قبائل کے ساتھ ہمیشہ ہی بگٹی قبیلے کی خونی لڑائیاں ہوتی رہیں ہیں اکثر بگٹی قبیلے کے افراد اپنے ہمسایہ قبیلوں کی زمینوں اورل پر قبضہ کرتے رہے ہیں بگٹیوں کی اس کیفیت کو انکریزوں نے بزور شمشیر کنٹرول کیا) روسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ میں لکھتے ہیں مری اپنے پڑوسی بگٹی کے ساتھ خون بہانے والی دائمی جنگوں میں مصروف ہیں اس لئے دونوں خود کو ایک دوسرے کے قدیم اور اصلی دشمن سمجھتے ہیں اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب سرزمین بلوچستان میں مزید لکھتے ہیں کہ ان کا مرکز قصبہ
ڈیرہ ( ڈیرہ بگٹی )ہے ان کی چھ بڑی شاخیں اور 44 پاڑے ہیں
 بگٹی قبیلے کے بارے میں جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستانSEARCHLIGHTS ON BALOCHES AND BALOCHISTAN میں لکھتے ہیں کہ یہ ر ند بلوچوں میں سے ہے بگٹی قبیلے کے بارے میں جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستان SEARCHLIGHTS ON BALOCHES AND BALOCHISTAN کے صفحہ نمبر338 پر لکھتے ہیں کہ ان کو بگٹی یا زرکانی کہا جاتا ہے جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارا نی نے آگے چل کر بگٹی قبیلے کی بنیادی شاخیں اور شاخیں بیان کی ہیں قبیلے کی چھہ بڑی شاخیں اور 44 پار وں کے نام دیئے گئے ہیںایم لونگ ورتھ ڈیمز نے اپنی کتاب بلوچ قبائل میں صفحہ نمبر92 اور 93 پر بگٹی قبائل کی ان شاخوں اور پاڑوں کی تفصیلات اس طرح سے دی ہے کہ بگٹی قبیلہ بنیادی طور پر چھ شاخوں میں منقسم ہے یہ چھ شاخیں اس طرح سے ہیں
 
را ہیجہ    سردار خیل ہے ( نواب اکبر بگٹی کا تعلق اسی پاڑے سے ہے ڈیرہ بگٹی میں راہیجہ ہی کا کنٹرول ہے ، )نوتھانی،
 مسوری
ریاری (شمبانی)
کلپر 
 پھونگ
شامل ہیں ان چھ پارں کے44 شاخوں میں سے زرکانی ، پیروزئی، نوسانی، ببرک زئی کرمانزئی قاسمانی،مندوانی،سہگانی،نوسانی،شلوانی،بگرانی،فیروزئی، رامزئی اہم ترین شمار کی جاتی ہیں
۔ر وسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ کے صفحہ نمبر 77 پر لکھتے ہیں کہ بگٹی بھی مری قبیلہ کی طرح تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا قبیلہ نہیں تھا یہ قبیلہ بعد میں تدریجی طور پر دوسرے بلوچ قبائل حتیٰ کہ غیر بلوچ قبیلوں کے مہاجروں اور حتیٰ کہ کبھی پورے گروپوں مثلا ڈومبکی قبیلہ کے چاکرانی گروپ کے جذب ہو جانے سے وسعت پاگیا ( جیسا کہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان پانی پت میں ہونے والی جنگ کے دوران غلام بننے والے مرہٹوں کو ڈیرہ بگٹی میں لایا گیابعد میں یہ اب بگٹی قبیلہ کا حصہ بن گئے ر وسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ میں مزید لکھتے ہیں کہ بگٹی قبیلے کو کنٹرول کرنے والے موروثی سردار یا تمندار ہیں جو ڈیرہ بگٹی میں دائمی رہائش رکھتے ہیں مری اور بگٹی قبیلے کی ایک قلیل تعداد ترکما نستان کی ریاست میں بھی رہتی ہے اس وقت وہ بلوچی سے زیادہ ترکمانستانی زبان زیادہ بولتے ہیں کچھ بگٹی سندھ میں لاڑکانہ کے نزدیک بلوچستان کے سرحدی علاقے سے متصل بھی مقیم ہیں جہاں ان کو انگریزوں کے دور میں اس لئے بسایا تھا کہ پیر آف پگارا کے حر مریدوں کے مقابلے میں اپنے ہمدرد رکھے جاسکیں ، جب انگریزوں نے1839 میں سندھ اور اس علاقے پرپر قبضہ کرنا شروع کیا اور کراچی کی بندرگاہ پر قبضہ کرکے اس کو اپنا مرکز بنالیا تو اس وقت انگریز افواج مریوں اور بگٹیوں کے علاقے میں داخل ہو گئیں انگریز فوج میجرملا مور کی زیر قیادت 1839 میں ڈیرہ بگٹی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں داخل ہوئی اور بگٹی سردار کو قید کرلیا اور ڈیرہ بگٹی پر قبضہ کرلیا انگریز افواج نے1843 ہی میں بگٹیوں کے علاقے میں واقع کیان کے قلعے پر قبضہ کرکے کیان کو اپنا مرکز بنالیامگر بگٹی قبائل نے چھاپہ مار جنگ کا آغاز کیاجنوری 1845میں سر چارلس نیپئیر کی زیر قیادت بگٹی قبائل کے خلاف کارروائی کی گئی بگٹی ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر اپنے ہمسایوں اور سندھ میں پناہ لینے کے لئے چلے گئے جہاں ان کی جانب سے وقتا فوقتاانگریز حکومت کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی مگر 1847 میں فرسٹ سندھ ہارس کے ایک دستہ نے کرنل سر ڈبلیو میری ویدر( کراچی میں میری ویدر ٹاور ان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے) کی سرکردگی میں بگٹیوں کی ایک بڑی فوج کو بری طرح سے شکست دی جس کے نتیجے میں ان کی آدھی نفر ماری گئی اور بقیہ قید کرلی گئی جس کے نتیجے میں بگٹیوں کی طاقت ٹوٹ گئی ایک ایک کرکے تمام بگٹی سردار انگریزوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے چلے گئے ان میں سے بہت سوں کو اس وقت لاڑکانہ کے قریب زمین دی گئی اور بگٹی و مری انگریز افواج کا حصہ بن گئے یہ ہی وجہ ہے کہ اس خطے میں انگریزوں کا پہلا مرکز سبی میں بنا جس کے نزدیک ہی بگٹیوں کامرکز ہے اس علاقے کی حفاظت باقائدہ بگٹی اور مری کرتے رہے 1875 میں میجر سنڈی مان نے مری اور بگٹی سرداروں کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو قلات جانے کے لئے تیاری کریں مری اور بگٹی قبائل کی مدد سے انگریز افواج نے قلات پرحملہ کرکے بلوچ ریاست قلات کے دارلحکومت پر قبضہ کرلیااور اس وقت کے قلات کے حکمران نواب محراب خان انگریزوں کی فوج( جس میں بگٹی اور مری اور دیگر بلوچ قبائل بھی شامل تھے )کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کے بعد 1876 میں کوئٹہ پر قبضہ کرکے انگریزچھاؤنی اور مرکز قائم کیا گیا
بگٹی قبیلے کے سابق  سربراہ نواب اکبر بگٹی کا اصل و پیدائشی نام شہباز خان تھا نواب اکبر بگٹی کی تاریخ پیدائش 12 جولائی 1926 ہے ابتدائی تعلیم کراچی کے گرائمر اسکول سے حاصل کی پھر چیفس کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی نواب اکبر بگٹی اپنے بڑے بھائی نوابزادہ عبدالرحمان بگٹی کے بجائے 1939 میں اپنے والد نواب محراب خان بگٹی کے انتقال کے وقت بلوچ قبیلے کے سردار اس لئے بنائے گئے کہ ان کے بڑے بھائی عبدالرحمان بگٹی انگریز دشمن تھے اور انگریز ان کو سخت نہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے تھے اس لئے انگریزوں نے نواب محراب خان کی وفات کے بعد 14 سالہ اکبر خان بگٹی کو جو کمسن تھے بگٹی قبیلے کا سردار بنا دیا اس وقت اگر چہ نواب اکبر بگٹی جو چیفس کالج لاہور میں تعلیم حاصل کررہے تھے سردار بنا دئے گئے اس وقت ان کی کم عمری کی وجہ سے خان بہادر جمال بگٹی کو قبیلے کا نگران مقرر کیا 
۔
1947 میں شہباز بگٹی المعروف اکبر خان بگٹی نے بگٹی قبیلے کے سردار کی حیثیت سے باقائدہ زمہ داریاں سنبھالیں اور ان کو تمام اختیارت دے دئے گئے( نواب اکبر بگٹی نے ایک انٹر ویو کے دوران کہا تھا کہ بلوچ قبیلہ کاسربراہ سردار ہوتا ہے نواب نہیں میں نواب نہیں ہوں ) 1949 میں پی ایس پی کے ایک کورس میں شرکت کی 1951 میں ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل کے مشیر برائے تعلیم ، صحت بحالیات و اطلاعات مقرر ہوئے 1957 سے 1958تک ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے امور داخلہ اور دفاع مقرر ہوئے اسی عرصے میں انہوں نے ری پبلیکن پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کی.
 
ایوب خان کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی زیاد ہ عرصہ جیل میں رہے ابتدا میں انہیں فوج کشی کے بعد گرفتار کیا گیا اس کے بعد ان کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اس وقت ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے بھائی احمد نواز بگٹی کے سسر حاجی ہیبت خان  کو قتل کیا ہے اس الزام میں نواب اکبر بگٹی کو موت کی سزا سنائی گئی ایک قبائلی روائت کے مطابق انہوں نے اس وقت پچاس ہزار روپیہ خون بہا ادا کرکے رہائی حاصل کی اس دوران نواب اکبر بگٹی کراچی سینٹرل جیل میں بھی رہے سردار شیر باز مزاری کا کہنا ہے کہ اکبر بگٹی کی سزائے موت ختم کرنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے
 نواب اکبر بگٹی کا کہنا ہے کہ ان کو سزائے موت سے معافی ایک پشتون سردار کی وجہ سے ملی جس نے اپنی پگڑیاتار کر ایوب خان کے قدموں پر رکھ دی تھی رہائی کے بعد سردار عطا ء اللہ مینگل کے ساتھ مل کر نواب اکبر بگٹی نے نیپ کے لئے کام کیا 1970 کے انتخابات میں اکبر بگٹی نے نیشنل عوامی پارٹی نیپ کا ساتھ دیا تھا مگر جب نیپ نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر بلوچستان کی حکومت تشکیل دی تو اس وقت اکبر بگٹی کو نظر انداز کیا گیا ان کے بھائی احمد نواز بگٹی نے نیپ کی حکومت کاساتھ دیا اور نیپ کی صوبائی حکومت میں وزیر بھی بنے جس کو کبھی بھی اکبر بگٹی نے معاف نہیں کیا (جب احمد نواز بگٹی نیپ کی حکومت میں وزیر تھے اس وقت نواب اکبر بگٹی نے پچاس کے قریب بگٹیوں کو کوئٹہ سیکرٹریٹ بھیجا تاکہ اپنے بھائی احمد بگٹی کی وفا داریاں تبدیل کردیں مگر انہیں ناکامی ہوئی ) مگر جلد ہی نیپ کا انتقام انہوں نے اس طرح سے لیا کہ جب زولفقار علی بھٹو کی جانب سے بلوچستان میں سردار عطا ء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو نواب اکبر بگٹی نئی حکومت کے گورنر مقرر کئے گئے نواب ا کبر بگٹی ہی کے دورمیں فوجی آپریشن شروع کی گیا ایک بلوچ قوم پرست رہنما طاہر بزنجو اپنی کتاب بلوچستان کیا ہوا کیا ہوگاکہ صفحہ نمبر 148 پر اس طرح سے لکھتے ہیں کہ اکبر بگٹی صاحب نے کیا کیا آپ بخوبی واقف ہیں کچھ مہینوں کے بعد بلوچ لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا گیا میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطال ء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری میر گل خان نصیر میر محمود عزیز کرد میر بیزن ، میر امیر الملک مینگل ، اور دوسرے بہت سے رہنما گرفتار کر لئے گئے
طاہر بزنجو اپنی کتاب بلوچستان کیا ہوا ؟کیا ہوگا؟میں اس سے قبل صفحہ نمبر88 پر اس طرح سے لکھتے ہیں کہ،،جب نواب اکبر بگٹی 1973 میں بلوچستان کے گورنر بنے اور میر غوث بخش بزنجو جیل میں تھے تو بزنجو صاحب کے آبائی گاؤں (نال) میں کتنے لوگ خوف سے اس کے خاندان کے لئے چینی اور آٹا لاتے تھے؟ کیونکہ ان ( غوث بخش بزنجو ) کی راشن بندی کی گئی تھی جرم بقول نواب اکبر بگٹی میر غوث بخش بزنجو نے کیا تھا اور سزا اس کے بے گناہ خاندان کے لوگ بھگت رہے تھے ،مگر جلد ہی زوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے حکو مت سے استعفیٰ دیدیااس کے بعد کی مدت انہو ں نے خاموشی کے ساتھ گزاری 1977 کے بعد کچھ عرصہ کے لئے تحریک استقلال میں بھی شامل رہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں زیادہ تر ان کے متنازعہ بیانات نے تمام ملک کے عوام اور پریس کی توجہ ان کی جانب مبذول رکھی یہ ہی وجہ ہے کہ 985 1کے غیر جماعتی انتخابا ت میں انہوں نے خود شرکت نہیں کی ان کی جگہ ان کے بھائی احمد نواز بگٹی اور ان کے بیٹے مرحوم سلیم اکبر بگٹی نے انتخابی عمل میں حصہ لیا
 17اگست 1988 کو جنرل ضیا ء الحق کے طیارے کے تباہ ہونے کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سردار عطا ء اللہ مینگل اور بی ایس او کے سابق چئیر مین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ان کے ساتھی ڈاکٹر مالک بلوچ ایوب بلیدی کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل الائینس بی این اے
BNA بنائی جس نے انتخابات میں سردار عطا ء اللہ مینگل کے قدیم ساتھی سردار غوث بخش بزنجو کو بری طرح سے شکست سے دو چار کیا خود غوث بخش بزنجو اپنے سابق شاگرد اور بی ایس او کے رہنما منظور گچکی کے ہاتھوں بری طرح شکست س دوچار ہوئے اس اتحاد کے نتیجے میں بی این اے نے قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی چھ نشستیں حاصل کی نواب اکبر بگٹی نے بی این اے اور جمعیت علمائے اسلام ، اور آئی جے آئی کے اشتراک سے صوبائی حکومت تشکیل دی ۔بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی5-21989 کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے مگر اپنی نت نئی اور نرالی پالیسیوں کے نتیجے میں وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ زیادہ مدت تک نہیں رہ سکے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور کی چند یادگاروں میں بلوچستان اسمبلی کی عمارت ہی جس کا نقشہ انہوں نے منظور کیا تھا اس کے علاوہ ان کے دور کا وہ کارنامہ بھی ریکارڈ کاحصہ ہے جب انہوں نے بلوچستان کے سب سے انتہائی اہم صنعتی علاقے حب انڈسٹریل ایرئے اور گڈانی شپ بریکنگ میں سندھ کے اور گیر مقامی صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے داخلے پر پابندی عائد کردی انہوں نے اس طرح سے یہ قدم اٹھایا کہ سندھ کے بعض صنعتکاروں کو تو اس لئے گرفتار کرلیا کہ صرف مقرر کردہ وقت کے بعدلسبیلہ میں داخل ہوئے تھے سردار اکبر بگٹی کے ان اقدامات کی وجہ سے اس علاقے میں آنے والے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے حب بلوچستان کی جگہ پاکستا ن کے دوسرے علاقوں کا رخ کر لیا اس لے نتیجے میں حب انڈسٹریل ایریئے میں پھر دوبارہ اس طرح سے انویسٹمنٹ نہ ہوسکا جسطرح اس سے قبل ہورہا تھا بی این اے کا یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا جلد ہی اس اتحا د کی ہنڈیا بیچ چوراہاے پر اس طرح سے ٹوٹی کہ نواب اکبر بگٹی نے جلد ہی اپنی علیحدہ جماعت جمہوری وطن پارٹی بنائی جس کا انگریزی مفہوم نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنتا ہے (جو ان کے بہنوئی سردار شیر باز خان مزاری کی جماعت تھی جب کہ سردار عطا ء اللہ مینگل اور ان کے بیٹے سردار اختر مینگل نے بی این پی بنائی یہ ان کی حکومت کی اہم ترین یادگارہیں 07-08-1990 کو نئے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی حکومت کاخاتمہ ہوا نئی کئیر ٹیکر حکومت کے وزیر اعلیٰ ان کے داماد ہمایوں خان مری بنے اگر چہ نئے انتخابات میں جمہوری وطن پارٹی نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی مگر نواب اکبر بگٹی کی حکومت کے نتائج کو چکھنے اور برتنے والے بلوچ رہنماؤں کی اب مکمل طور پر کوشش تھی کہ کسی بھی طرح سے نواب اکبر بگٹی کو صوبے کا وزیر اعلیٰ نہ بننے دیا جائے یہ ہی وجہ ہے کہ جب صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں نئی حکومت قائم کی گئی تو اسوقت کے قائد حزب اختلاف اکبر بگٹی ہی بنے 1993کے عام انتخابات میں نواب اکبر بگٹی نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 202 سے انتخاب لڑا اور کامیاب رہے۔مری،
جمالی،
کھیترانی،
بزنجو ان کی اکثریت کے بارے میں بلوچ عوام کا خیال ہے کہ یہ زکری ہیں اگر چہ کے غوث بخش بزنجو نے اپنے زکری ہونے کی ہمیشہ ہی تردید کی ہے گڈانی کے مرحوم وڈیرہ خدا بخش بھی بزنجو ہی تھے مگر وہ اپنے آپ کو سنی مسلمان بتاتے تھے بزنجو قبیلے کی بہت بڑی تعداد لسبیلہ میں سونمیانی اور وندر کے قریب بھی رہتی ہے یہاں ان کے سربراہ اسلم بزنجو ہیں ، لہڑی،بزدار،گچکی،
مکرانی بلوچ ۔یہ بنیادی طور پر مکران ،اور ریاست خاران ،گوادر، تعلق رکھتے ہیں ان میں بڑے قبائل میں نوشیروانی ( بلوچستان کے موجودہ وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی ہیں جن کا تعلق نوشیروانی قبیلے سے ہے )،
گچکی ، بلیدئی ،رند ،کلمتی، گورگیچ، لاشاری، رئیس، جدگال، کھوسہ مید قبائل شامل ہیں جن کا مرکز مکران میں کولواہ، اور بلیدہ ہیں گچکی ان کا مرکز پنجگور ہے بلیدئی ان کا مرکز بلیدہ ہے
بدین
برما
بنین
                                                   ۔ بلوچی ۔ ۔
 صوبہ بلوچستان میں بولی جاتی ہے  بلوچی زبان پکستان کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے  جبکہ پڑوسی ملک ایران میں بھی بلوچی زبان بولی جاتی ہے ایران میں بلوچی کا ایک دوسرا لہجہ جسےمغربی بلوچی کہا جاتا ہے بولا جاتا ہے  پاکستان میں بلوچی زبان کے خود بلوچستان میں بھی کئی لہجے ہیں جن میں ایک مکرانی بولی اور خضداری بولی  ہےجبکہ ڈیرہ بگٹی اور  ضلع کولہو جہاں مری قبائل آباد ہیں ان کی بلوچی کا بھی ایک الگ ہی لہجہ استعمال کیا جاتا ہے     جبکہ  بلوچی  کے بولنے والے سندھ اور صوبہ پختونخواہ میں بھی مل جاءیں گے 
                                                        براہوی۔
سابقہ ریاست قلات کے حکمران خاندان جو احمد زئی کہلاتے ہیں  براہوی زبان بولنے والے قبائل میں شمار کیئے جاتے تھے براہوی ذبان ذیادہ تر بلوچستان کے ضلع خضدار میں بولی جاتی ہے جو رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے  جہاں براہوی زبان کے بولنے والے مختلف قبائل آباد ہیں ۔
بلتستان
 بلتی ۔ 
                   صوبہ گلگت بلتستان میں بلتی ۔ زبان بولی جاتی ہے
بروشسکی
                     یہ زبان بھی گلگت اور بلتستان میں ہی بولی جاتی ہے
بدھ مت
کے ماننے والوں کا پاکستان میں سب سے بڑا مرکز پشاور کے نزدیک واقع ٹیکسلا کا شہر تھا جو اس وقت برصغیر کا دارلخلافہ بھی تھا یہیں بدھ مت کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی قائم تھیں جہاں دنیا بھر سے طالب علم بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے  برصغیر مکا مشہور حکمران اشوکا بدھ مذہب کا ماننے والا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ صوبہ پختونخواہ میں بدھ مذہب کے بے شمار آثار مل جائں گے ۔
صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آج بھی بدھ مذہب کے آثار قدیمہ مل جاتے ہیں خاص طو پر سندھ کے علاقے تھر میں  بدھہ مذہب کے بپہت سے آثار مل جائیں گے یہ بات بھی تاریخی سچ ہے کہ ۷۱۲ عیسوی میں جب محمد بن قاسم نے سندھ پر راجا داہر کے خلاف  حملہ کیا تو سندھ کی اکثریتی آبادی جو بدھ مزہب کی پیروکار تھی اور راجا داہرنے    جو کہ  خود برہمن تھا اور ہندو عقائد کو سندھ کی بدھ مذہب اکثریتی آبادی پر زبردست   نافذ کردیا تھا  اس لیئے راجہ داہر کا ساتھ نہیں دیا

                                            میمن برادری کی تاریخ


            پاکستان کے قیام تعمیرا ورترقی میں اہم ترین کردار ادا کرنے والی میمن برادری کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حیرت انگیز بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی دوسری تجارتی برادریوں دہلی پنجابی سوداگر، چنیوٹ برادری، اور آغاخانی جماعت کی کچھ شاخوں کی مانند میمن برادری کے بزرگوں کا بنیادی تعلق پاکستان ہی سے تھا اور وہ صدیوں پہلے موجودہ پاکستان سے تلاش معاش یا تبلغ اسلام کی خاطر ہجرت کرکے اس خطے سے برصغیر ہندو پاک کے دیگر خطوں گجرات، راجھستان، دہلی ، بنگال، برما اور دیگر خطوں میں جو اب بھارت میں شامل ہیں چلے گئے تھے( انشاللہ آئندہ ان تمام برادریوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے گی ) جہاں رہ کر ان برادریوں نے اس وقت وہاں قائم اسلامی حکومتوں کی ترقی اور تعمیر میں جہاں اپنا کردار حسن خوبی کے ساتھ ادا کیا وہیں پے ان علاقوں میں جہاں یہ برادریاں مقیم تھیں اسلامی اصولوں کے مطابق مساوات کے نظام کو قائم کیا اور ہندو مذہب کے بنیادی اصولوں جس کی بنیاد پر انسانیت کو تقسیم کیا گیا اور چھوت چھات کے نظام بنایا گیا ہے کو رد کیا جس کی وجہ سے صدیوں سے ظالمانہ ہندو نظام کے ظلم و ستم کی شکار مقامی آبادی میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا نہ صرف اسلام پھیلا بلکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر مقامی آبادی کا بڑا حصہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے گھل مل گیا کہ بعد میں آنے والوں کے لئے یہ شناخت کرنا ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ پہچان سکیں کہ ان میں پرانے مسلمان کون ہیں اور نئے مسلمان کون؟بات دور نکل جائے گی آئے اصل موضوع کی جانب میمن برادری کی تاریخ کا جب جائیزہ لینے کی کوشش کی گئی تو میمن برادری کی تاریخ کے بارے میں چھپنے والی تمام ہی کتابوں میں میمن برادر ی کے حوالے سے لکھا ہوا ہے کہ یہ دراصل سندھ کی لوہانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے جو کہ راجہ داہر کے دور میں سندھ کے علاقے ٹھٹہ ، حیدرآباد ،شہداد پور، موجودہ نواب شاہ ، اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں مقیم تھے ان کی باقائدہ ایک ریاست قائم تھی جہاں لوہانہ قوم سے تعلق رکھنے والے سردار حکمران تھے یہ لوہانہ قوم کیا تھی ؟اور اس کا مذہب کیا تھا ؟ اور یہ کہاں سے آئی تھی اس کے بارے میں بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ راجہ داہر کے دور اور اس سے قبل کے دور پر ایک نگاہ ڈال لی جائے.
710عیسوی یا 92ہجری میں سندھ اسلامی حکومت کا حصہ اس وقت بنا جب حضرت محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ سندھ کے حکمران ہندو راجہ داہر کو شکست دی اس طرح اس خطے کی تاریخ میں710عیسوی کا سال اہم ترین قرار پایا جب سندہ کا خطہ اسلامی خلافت کا حصہ بنا اگر چہ کو اس دور کی تاریخ کو کئی اسباب کی بنا پر مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر اس کے باؤجود سندھ کی تاریخ کے اہم ترین پہلو ان کوششوں کے باؤجود دب نہیں سکے ہیں سندھ اس زمانے میں اگر چہ راجہ داہر کے ماتحت ضرور تھا مگر اس وقت سندھ کی حیثیت اپنے پڑوسی ملک ایران کے باجگزار ملک کی تھی سندھ کا علاقہ اس وقت عارضی طور پر اس وقت آزاد ہوا جب ایران کی حکومت کا خاتمہ مسلمانوں نے کیا اور ارد گرد کے علاقے میں کوئی بڑی طاقتور ریاست موجود نہ رہی جب بھی اس وقت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں ایران کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلوچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت اس خطے کے بیشتر علاقوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے موجود تھے جبکہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان میں باقی رہ گئے ہیں ) مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا 
ایرانی حکومت کے اثرات اس خطے پر قائم ہونے سے قبل موجودہ پاکستان کے تما تر علاقوں میں بسنے والے عوام کا مذہب بنیادی طور پر بدھ مذہب تھا یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ بدھ مذہب نے بنیادی طور پر برہمنوں کی انسانیت کی چار حصوں میں تقسیم کو رد کیا ہے قدیم زمانے میں برہمن ایک علیحدہ قوم کے طور پر برصغیر میں وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے آئے تھے جنہوں نے اپنا علیحدہ مذہب رائج کیا تھا جو برہمن مت کے نام سے جانا جاتا تھا اس وقت برہمنوں نے اپنی حکومتی و فوجی ضرورت کے تحت ماتحت علاقوں کو ان چار حصوں میں تقسیم کیا.
(1) برہمن (2) کھتری(3) ویش(4) شودر
بنیادی طور پر برہمن چونکہ حکمران تھے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو سب سے آگے رکھا کھتری چونکہ ان کے ہم پلہ تھے ( اور اسی علاقے سے برصغیر میں آئے تھے جہاں سے برہمن بھی آئے تھے اس لئے بعض معاملات میں ان سے بھی آگے اس لئے کھتریوں کو دوسرا درجہ دیا تیسر ے اورچوتھے درجے میں ان اقوام کو رکھا جن کو برہمنوں نے طاقت کے بل پر مغلوب کیا تھا مگر اپنی حکمرانی کی ضرورت کی بنیاد پر کسی کو ویش کہا یہ بات واضح رہے کہ برہمنوں نے ویش ان کو شمار کیا جو کہ اگرچہ رتبہ میں برہمنو ں اور کھتریوں سے کسی بھی طرح سے کم نہیں تھے مگر دیگر کھتریوں کی مانند ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے برہمن سماج کا مقابلہ کیا یا برہمنوں کے مذہب کو اختیار کر لینے کے بجائے اپنے مذہب پر قائم رہے جیسا کہ لوہانوں کا معاملہ ہے کہ انہوں نے بدھ مت کی تعلیمات کو اختیار کرے رکھا جب کہ برہمنوں نے ان اقوام کو شودر کا درجہ دے جنہوں نے سخت ترین مزاحمت کی برہمنوں کے نظام ے سامنے سر نہیں جھکایا حتیٰ جنگلوں اور پہاڑوں میں بھی برہمن نظام کے خلاف مزاحمت کرتے رہے اس تقسیم کو مضبوط بنانے کے لئے مذہبی فلسفہ گھڑا گیا مگر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اور وسط ایشیا سے نئے آنے والے فوجی جتھوں اور قبیلوں کی مسلسل آمد کے نتیجے میں برہمن حکمرانوں نے اپنے سیاسی خیالات کو باقائدہ مذہب کی شکل دی برہمن ازم بعد میں آہستہ آہستہ برصغیر کے دیگر بت پرست مذاہب کو اپنے اندر ضم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور پھر ہندو مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آیا ہے) اس لئے سند ھ کے عوام کی اکثریت انسان دوست ہونے کے ناطے بدھ مذہب کی پیروکار تھی جبکہ بدھ مذہب کی آمد سے قبل یہ خطہ پہلے یونان کا ماتحت تھا پھر بعد میں کسی حد تک یونانی نژاد حکمرانوں کا ماتحت رہا جس کے بعد اس خطے میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی حکومت اشوک اعظم کے دور میں قائم ہوئی جس کا دارلخلافہ ٹیکسلا تھا اشوک اعظم کے دور میں بھیجے گئے بدھ مذہب کے مبلغین کی وجہ سے جلد ہی سند ھ کے علاقے میں بدھ مذہب پھیل گیا( سندھ کی حدود اس وقت یہ نہ تھی جو آج ہیں بلکہ کچھ اور تھیں جن پر روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی ) جس کے نتیجے میں سندھ اور اس کے اطراف میں موجود زیادہ تراقوام کا مذہب بدھ مذہب ہوگیا(اس وقت ہم جس بدھ مذہب کو دیکھتے ہیں اس میں بھی برہمن ازم کی مانند بت پرستی موجود ہے مگر بدھ کی تعلیمات میں ہمیں بت پرستی نہیں ملے گی بلکے توحید پرستی کا نشاندہی مہاتما گوتم بدھ سے منصوب کتابوں میں اس وقت بھی مل جائے گی )
رفتہ رفتہ برہمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں اس خطے سے بدھ مذہب کی حکومتوں کا خاتمہ ہونا شروع ہوا جس کے نتیجے میں تمام برصغیر سے بدھ مذہب کے ماننے والے اقلیتوں میں شمار ہونے لگے حکومتوں کے چھن جانے کے نتیجے میں بدھ مذہب کے ماننے والے کمزور پڑتے چلے گئے جب کے برہمنوں نے اس موقع سے فائدہ اس طرح اٹھایا کہ سازشوں ،زور زبردستی اور طاقت کے بل پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کو مغلوب بنانا شروع کیا مگر سندھ برصغیر کے ان خطوں میں سے ایک تھا جہاں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی حکمرانی قائم رہی جس کا خاتمہ برہمن راجہ چچ نے دھوکہ کے ساتھ کیا اس وقت سندھ میں مقیم لوہانہ قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت بدھ مذہب کی ماننے والی تھی چچ نامہ اور دیگر کتب میں سندھ کی تاریخ کے حوالے سے رقم ہے کہ بمطابق یکم ہجری ٍ راجہ چچ ( جوہندو تھا) اپنی افواج کے ساتھ اپنی ہمسایہ ریاست بدھیا( یہ بدھ مت کے ماننے والوں کی ریاست تھی اس کا محل وقوع غالبا آج کا شکار پور ، جیکب آباد،اور لاڑکانہ تھا) پہنچا اس ملک کا پایہ تخت ککاراج تھا اور یہاں کے باشندوں کو سویس کہتے تھے اور اس کا حاکم بندر گو بھکشو کا لڑکا گوبند تھا راجہ چچ نے اس ملک کے ایک قلعہ سیوی پر حملہ کرکے فتح کرلیا تو یہ دیکھ کر اس طرف کے دوسرے حکمران کاکا کے لڑکے کتا بجے سنگھ نے خراج ادا کرنے کا اقرار کیا اب راجہ چچ سیوستان پہنچا (جہاں جاٹ قوم آباد تھی) جہاں کے حاکم کا نام سردار مہتہ تھا مقابلہ پر نکلامگر شکست کھا کر قلعہ میں محصور ہو گیا ایک ہفتے کے بعد اس نے اپنا قلعہ چچ کے حوالے کردیا اس کے بعد چچ برہمن آبادپہنچا ( یہ برہمن آباد کی حکومت دراصل بدھ مذہب کے پیروکاروں کی تھی جہاں کا حکمراں اکھم لوہانہ تھا راجہ نے اکھم لوہانہ کی افواج کو شکست دی اکھم لوہانہ مجبور ہو کر برہمن آباد کے قلعے میں محصور ہو گیا جہاں ایک سال تک اسکامحاصر ہ قائم رہا اس دوران اکھم لوہانہ نے اردگرد کی ریاستوں کے حکمرانوں سے مدد بھی مانگی مگر کسی جانب مدد نہ پہنچ پائی اسی دوران اکھم لوہانہ کسی بیماری کے سبب چل بسا اس کی جگہ اس کے بیٹے کو جانشین بنایا گیا آخر چچ نے ایک روز حملہ کرکے اس کو فتح کرلیا لوہانہ کے لڑکے کو اپنا اطاعت گزار بنایا اور اس کی ماں اور کھم لوہانہ کی بیوہ کے ساتھ شادی کرلی اور ایک سال تک برہمن آباد میں مقیم رہا جہاں سے پھر اپنی راجدھانی ارور پہنچا اپنے ساتھ لوہانوں اور جاٹوں کے سربراہوں کو بھی بطور ضمانت لے گیااس کے ساتھ ہی ساتھ مغلوبین کوکنٹرول کرنے کے لئے مندرجہ زیل قوانین کا بھی اجرا کیا جو اسطرح سے تھے۔
(1)مصنوعی تلوار کے سواکسی قسم کا ہتھیار نہ باندھیں
(2) قیمتی کپڑے جیسے شال ، ریشم، وغیرہ نہ استعمال کریں بغایت مجبورری صرف سرخ و سیاہ ریشم استعمال کریں 
(3) بغیر زین کے سوار ہوا کریں 
(4) ننگے سر اور ننگے پاؤں رہا کریں
(5) باہر نکلیں تو اپناکتا ساتھ لے لیں ۔
(6) جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا کریں
(7)جاسوسی اور رہبری کے فرائیض انجام دیں 
برہمن راجہ چچ کیجانب سے جاری کردہ ان احکامات کا واضح اور صاف مقصد یہ ہی تھا کہ بدھ مذہب کے پیروکار ریاست بدھیا اور ریاست لوہانہ کے بدھ مت کے ماننے والے عوام مغلوب ہوکر برہمنوں کے کنٹرول میں آجائیں اس مقصد کی خاطربرہمن راجہ نے اس طرح کے احکامات جاری کئے برہمنوں کی زیادتی اور ظلم کے نتیجے میں اگر چہ کہ عارضی طور پر بدھ مذہب کے پیروکار سر نگوں ہوگئے تھے مگر وہ موقع کی تلاش میں رہے اور یہ موقع کچھ عشروں کے بعد مل ہی گیا 
710عیسوی یا 92ہجری میں جب چچ کا بیٹا راجہ داہر سند ھ کا حکمران تھا( کہا جاتا ہے کہ راجہ داہر ہندو نہیں بلکہ پارسی ہوگیا تھا جس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ راجہ داہر نے اپنی بہن کے ساتھ شادی کرلی تھی جس کے حوالے سے ایک باقائدہ داستان تاریخ کی کتابوں کا حصہ ہے سندھ کی ہندو رعایاکا اسلامی افواج کے مقابلے میں راجہ داہر کا ساتھ نہ دینے کا سبب ایک یہ بھی ہے )اس وقت ایشیا سلامی حکومت کے جھنڈے تلے نئے انقلابات سے دوچار تھا سندھ کے پڑوس کی سپر پاور ایران جس کا ہمیشہ ہی سندھ باجگزار رہا تھا اسلامی حکومت کے سامنے ملیا میٹ ہوگئی یہ راجہ داہر کی خود سری نادانی اور حالات سے ناواقفیت تھی کے اس نے اس وقت محض عارضی حالات کو دائمی تصور کرکے اسلامی حکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی جس کے نتیجے میں سیلون سے عرب آنے والے تاجروں اور ان کے بیوی بچوں کو راجہ داہر کے اشارے پر گرفتار کرلیا جس کے نتیجے میں عراق کے حکمران حجاج بن یوسف نے ایک اسلامی لشکر جرار حضرت محمد بن قاسم کی قیادت میں تیار کرکے ا ن ڈاکووؤں او ر ان کے سرپرستوں کی سرکوبی کے لئے سندھ روانہ کی حضرت محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ سندھ کے حکمران ہندو راجہ داہر کو شکست دی اس طرح اس خطے کی تاریخ میں710عیسوی کا سال اہم ترین قرار پایا جب اسلامی حکومت کا جھنڈہ سندھ کی سرزمین پر لہرایا یہ ایک طویل موضوع ہے بات کو سمیٹتے ہوئے اصل موضوع کی جانب دوبارہ سے آتے ہیں حضرت محمد بن قاسم کے اسلامی لشکر کا مقابلہ اگر چہ کے بعض مقامات پر راجہ داہر کی افواج نے کیا مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ کے عوام کی بڑی اکثریت راجہ داہر کے ساتھ اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے میں اس لئے شریک نہیں تھی کہ راجہ داہر اور اس کی افواج کا تعلق ہندو مذہب سے تھا جب کے سندھ کے عوام کی اکثریت کا مذہب اس وقت بھی بدھ مذہب تھا جس کی اکثریت راجہ داہر اور برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار تھی یہ ہی وجہ ہے کہ جب سندھ مکمل طور پر فتح ہوگیا تو سندھ کے عوام کے مذہب بدھ مذہب کی بنیاد پر علما نے انہیں کافر نہیں جانا بلکہ انہیں اہل زمہ قرار دیا گیا اور اسلامی حکومت میں سندھ کے عوام کا درجہ اہل زمہ تصور کیا گیا جب کہ اسلامی اصولوں کے مطابق بدھ مذہب کے ماننے والوں کو مساوی درجہ دیا گیا جس کے تحت ان کے تمام بنیادی حقوق تسلیم کئے گئے جہاں ان کے حقوق تسلیم کئے گئے وہیں اسلامی حکومت کی زمہ داری بھی یہ قرار پائی کہ ان بدھ مذہب کے ماننے والوں کی جان و مال و آبرو کی حفاظت اسی طرح اسلامی حکومت کی زمہ داری ہے جس طرح سے ایک مسلمان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت ا سلامی حکومت کی زمہ داری ہے ان اصولوں اور اسلامی رواداری اسلامی نظام کی برکات دیکھ کر سندھ کے عوام کی اکثریت جو راجہ داہر اور برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار تھی تیزی کے ساتھ اسلام قبول کرنے لگی یہ ہی صورت حال سندھ میں مقیم عشروں سے برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار لوہانوں کی بھی ہوئی 
710عیسوی یا 92ہجری میں سندھ میں اسلامی حکومت کے قائم ہوجانے کے بعد سندھ کے عوام کے اندر اسلام کے قبول کرنے کا سلسلہ تیزی کے ساتھ شروع ہوگیا برہمن آباد اور اس کے ارد گرد مختلف علاقو ں میں مقیم لوہانوں میں رفتہ رفتہ اسلام کے قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا 710عیسوی یا 92ہجری کے تقریبا سو ا سو سال کے بعد 824 عیسوی میں ٹھٹہ میں مقیم لوہانوں کی ایک بہت ہی بڑی بستی میں اسلام کی دعوت عراق کے ایک بزرگ حضرت یوسف قادری کے ذریعے عام ہوئی حضرت یوسف قادری کی جانب سے دی گئی اس دعوت کے نتیجے میں بدھ مذہب کے ماننے والوں لوہانوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے لوہانہ قوم کی اکثریت سچے دل کے ساتھ اسلام قبول کرتی چلی گئی اور اپنی مشرکانہ رسومات کو رفتہ رفتہ ترک کرتی چلی گئی ان کے اسلام قبول کرنے کے اثرات ان کے قدیم الا صل مسلمانوں پر بہت اچھے پڑے
(جاری ہے)
                                            میمنی۔ 
              لسانیات کے ماہرین کے نزدیک میمنی زبان سندھی زبان ہی کی ایک شاخ ہے جو  سندھ میں مقیم میمن قوم  کے گجرات اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت کر جانے کے نتیجے میں معارض وجود میں آئی اگرچہ کہ سندھی زبان سے میمنی زبان میں ڈھلنے کے عمل میں صدیاں لگیں۔

تاریخ فیروز شاہی مولف فیروز الدین برنی متر جم ڈاکٹر معین الدین
تاریخ سندھ علامہ سید سلیمان ندوی
تاریخ خان جہانی خواجہ نعمت اللہ ہروی ترجمہ ڈاکٹر محمد بشیر حسین
یوسف زئی افغان اللہ بخش یوسفی
تاریخ کھتری کھتری حاجی یوسف اللہ رکھا (مترجم)کھتری عصمت اللہ پٹیل
اعوان تاریخ کے آئینے میں محبت حسین اعوان
گوتم بدھ راج محل سے جنگل تک کرشن کمار
جغرافیہ خلافت مشرقی جی لی اسٹرینج
مہابھارت آر کے نارائین
بھگوت گیتا کرشن کرپا مورتی
قدیم ہندوستان ڈی ڈی کوسمبی
اشوک اعظم ( مرتب) ڈاکٹر حفیظ سید (ابتدائیہ) لالہ جیت رائے
سکندر اعظم ہیرالڈ لیم (مترجم)غلام رسول مہر
پراچگان لیفٹنٹ کرنل(ریٹائرڈ) اشرف فیض پراچہ
مخدوم جہانیاں جہاں گشت محمد ایوب قادری
تحفت الکرام
فاہیان کا سفر نامہ مترجم یاسر جواد
سفر نامہ ابن بطوطہ
سندھ میں اردو شاعری ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ
پاکستان میں تہذیب کا ارتقا سبط حسن
اسلامک انسائکلو پیڈیا سید قام محمود
تذکرہ (پٹھانوں کی اصلیت اور انکی تاریخ) خان روشن خان
تذکرہ میمن قوم ہاشم ذکریا
میمن شخصیات عمر عبدالرحمان
الحاق جونا گڑھ حبیب لاکھانی
ماہنامہ سوداگر گولڈن جوبلی نمبر
Story of A Great Patriot ADAMJEE

                                            پ
                                          ق
قلات
  
                                       
                                        ک
کشمیری  
                یہ آزاد جموں کشمیر میں بولی جاتی ہے جب کے کراچی میں مقیم کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی کشمیری زبان بولتی ہے ۔
ان کے علاوہ پاکستان میں بہت سی زبانیں مزید بھی بولی جاتی ہیں جن کی نوعیت اس طرح سے ہے
کافری   
             یہ  شمال مغربی علاقے میں واقع کافرستان کے علاقے کے باشندے بولتے ہیں جو اپنے آپ کو سکندر آعظم  یا سکندر یونانی کی فوج کی اولادوں میں شمار کرتے ہیں۔
کھیتران قبیلہ
                بلوچستان کے ان قبائل مین سے ایک شمار کیا جات ہے جن کو
کھیتران ضلع
                   بلوچستان کا اہم ضلع جس کی سرحدیں ایک جانب ضلع ڈیرہ بگٹی سے جاملتی ہیں تو دوسری جانب کولہو ضلع سے بھی ملتی ہیں
کھیترانی۔زبان
                   یہ بلوچستان کے ضلع کھیتران میں آباد کھیتران قبیلے کے درمیان بولی جاتی  کھیترانی زبان کے بولنے والے صرف کھیترانی قبیلے تک ہی محدود ہیں
                                       کراچی
karachi History تاریخ کراچی 
حیرہ عرب کے کنارے پرآبادی کے اعتبار سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر کراچی کی تاریخ جس قدر عجیب ہے اسی قدر اس کے بسنے کی بھی کہانی عجیب و غریب ہے کچھ محققین کے نزدیک زلزلوں اور سیلابوں کی زد میں رہنے والے اس خطے میں کراچی کا نیا جنم اس طرح سے ہوا کہ جب بلوچستان کے ساحل پر حب ندی کے کنارے تاجروں کی بندرگاہ کھڑک بندر قدرتی آفات کا شکار ہونے لگی اور وہاں مٹی اس قدر جمع ہو گئی کہ جہاز رانی ممکن ہی نہ رہی تو تاجروں کی اس بستی کے سربراہ سیٹھ بھوجومل نے اپنی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لئے نئے تجارتی مرکز اور مقام کی تلاش کا آغاز کیا سیٹھ بھوجومل کی نگاہ انتخاب کراچی کی بندرگاہ بنی جہاں اسوقت مچھیروں کی بستی موجود تھی جو کراچی کا ماضی بھول کر محض مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے سیٹھ بھوجومل نے کراچی کی ازسر نو تعمیر یا آبادکاری کی یا تجارتی منڈی بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے ملازموں اور دیگر تاجروں کے ہمراہ کراچی کے مقام پر آبسا سیٹھ بھوجومل کو ایک طرح سے جدید کراچی کا ابتدائی آبادکار تو کہا جاسکتا ہے مگر جدید کراچی کا بانی اس لئے نہیں کہا جاسکتا ہے

 کہ کراچی کی اہمیت کو سب سے پہلے اس خطے میں آنے والے انگریز تاجروں اور سروئیروں نے سمجھا تھا اور انہوں نے کراچی پر قبضے اور اس کو اپنا مرکز بنانے کے لئے پلاننگ کا آغاز کردیا اسی دور میں سیٹھ بھوجومل کراچی کے مقام پر اپنی منڈی قائم کررہا تھا انگریز سائینسدان اس سے قبل کراچی کا سروے کرچکے تھے۔
 1774 میں اب سے دو سو بتیس 232برس قبل انگلستان سے بمبعی سے ایک بحری مہم خلیج فارس اور بحیرہ ہند کی بندرگاہوں کو تلاش کرنے کے لئے روانہ کی گئی جس کی قیادت مسٹر پاسکل کررہے تھے جو تین بحری جہازوں پر مشتمل تھی مسٹر پاسکل کی زیر قیادت یہ جہاز کراچی بھی پہنچے مسٹر پاسکل نے اس شہر کو اپنے نقشے میں شامل کیا مسٹر پاسکل نے اپنی رپورٹ میں اسکندرآعظم کی افواج کا بھی تذکرہ کیا جو واپس یونان جانے کے لئے کراچی کے مقام پر مقیم ہوئیں تھیں اس وقت کراچی کو کروکالاKrokalaکے نام سے پکارا جاتا تھا
مگر کراچی کی جدید پلاننگ اس وقت ہی ممکن ہوسکی جب انگریزوں نے باقائدہ کراچی پر قبضہ کرلیااس سے قبل مشہور انگریز ریسرچ اسکالر اورمحقق رچرڈبرٹن جس نے بعدمیں دریائے نیل کے سوتے دریافت کئے حکومت برطانیہ کی جانب سے اس خطے کے ریسرچ کے لئے آیا یہ ہی وجہ ہے کہ تاریخ دان کراچی کی تاریخ کے ڈانڈے اسکندرآعظم اور اس کے دور سے ملاتے ہیں جب اسکندر آعظم پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے کے بعد یونان واپس جانے کے لئے اس خطے میں آیا تو اس نے بحیرہ عرب کے کنارے ایک دریا کے کنارے پر ایک نیا شہر آباد کیاجس کا نام اس نے اپنے نام پر اسکندریہ رکھا یہ اسکندریہ کب کلاچی میں تبدیل ہوا ؟یہ اندازہ کوئی نہیں لگا سکا ہے ؟البتہ مورخین اور تاریخ دان ہمیشہ ہی اس مقام پر کسی نہ کسی شہر کی نشاندہی کرتے رہے ہیں چاہے وہ کسی عورت سے منسوب ہو یا کوئی مچھیروں کی بستی ہو اس مقام پر ہر دور ہی میں کسی نہ کسی شہر کا تذکرہ ملتا رہا ہے جو کہ اس خطے کی بڑی بندرگاہ کے طور پر جانی جاتی رہی ہے سندھ کے مشہور شاعر اور صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنے رسالے سر جو گھاتو میں کلاچی کا بھی تذکرہ کیا ہے ان کے بیان کردہ واقعات راجا دلو رائے کے عہد میں جو روایت کے مطابق پندرھویں صدی عیسوی میں رونما ہوئے تھے اس راجا کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کا پایہ تخت اس جگہ رہا ہوگا جہاں اس وقت باتھ آئی لینڈ واقع ہے اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے یہ و قت سیٹھ بھوجومل کی کراچی آمد سے تقریبا دوسو سال قبل کا ہے اسی سے سیٹھ بھوجو مل کے بارے میں خوش گمانیوں اور قیاس آرائیوں کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ بات اصل میں وہی ہے کہ کراچی د نیا کی ان بندرگاہوں میں شامل ہے جن کوسکندرآعظم نے بسایا تھا مگر حالات اورتاریخ کے اتار چڑھاؤ کے نتیجے سکندرآعظم کے بسائے ہوئے شہراسکندریہ پردبیزپردے پڑگئے جن کومفاد پرست اورناہلوں نے مزیدپوشیدہ کردیا محقیقین کی رائے کے مطابق اورکراچی کے ایک قدیم باشندے کی تحریروں کے مطابق باتھ آئی لینڈ کی نواح میں ایک قدیم شہر کے آثار موجود تھے جس کو بعد میں باتھ آئی لینڈ آباد کرنے والوں نے مخصوص مفادات کی خاطر پوشیدہ کردیا یا فروخت کردیا                                        اسکندر اعظم کا آباد کردہ اسکندریہ کا اصل مقام بھی باتھ آئی لینڈ ہی تھا جسکے آثار و شواہد انگریزوں کی آمد سے قبل اورکراچی کی جدید پلاننگ سے قبل دیکھے جاسکتے تھے سکندر آعظم کی آمد اور ایرا ن کیجانب روانگی کے واقعے کوڈھائی ہزار سال کی مدت گزرچکی ہے اس دوران بدلتے ہوئے وقت کیساتھ ساتھ کراچی کی ہئیت وہیبت میں تبدیلی آتی ر ہی اگر چے خطے کے حالات کے باعث کراچی کسی خاص اہمیت کاحامل نہیں رہامگرکراچی مچھیروں کی بستی کی شکل میں قائم رہا کراچی کی جدید پلاننگ اس وقت ہی ممکن ہوسکی جب انگریزوں نے باقائدہ کراچی پر قبضہ کرلیا
کراچی کی آبادی میں یوں تو انگریزوں کے قبضے کے بعد ہی سے اضافہ ہونے لگا تھا 1843 میں جب انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کیا تھا اس کے بعد سے کراچی اس خطے کا ایک جدید شہر بن کر ابھرا تھا جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تھا خواہ کوئی بھی پہلو نکلے مگر جب بھی کراچی کی پلاننگ کی بات کی جائے گی انگریزوں کی پلاننگ کی تعریف بحر حال کرنا پڑے گی انہوں نے جدید کراچی کو اس طرح سے تعمیر کیا تھا کہ اس کی مثال دوسری نہیں ملے گی مگر اس کے ساتھ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ کراچی کو برصغیر کا وہ شہر تصور کرتے تھے جو انگلینڈ سے ہر اعتبار سے سب سے زیادہ نزدیک تھا اسی لئے وہ کراچی کو برصغیر کا گیٹ وے قرار دیتے تھے
مگر قیام پاکستان کے بعد سے آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے چار لاکھ شہر کی آبادی والے شہر کی آبادی کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر اس اضافے کو کراچی شہر کی آباد کاری کے زمے دار اداروں اور افسروں نے اپنی نااہلیت اور مفادات کی بنا پر ہمیشہ ہی نظرانداز کیا جس کی بنا پر کراچی شہر کو جس طرح سے بسنا چاہئے تھا اس طرح سے بسایا ہی نہیں جاسکا ہے حالانکہ بعض محب وطن اور فرض شناس افسروں نے انتہائی محنت اورجدوجہد کے ساتھ کراچی کے لئے ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا تھا صدر ٹاؤن
پریڈی سٹریٹ وکوارٹرز
                                  پریڈی کوارٹرز کا رقبہ 34.33 ہے یہ ایم اے جناح روڈ کے دونوں طرف واقع ہے اس کے مشرق میں صدر بازار مغرب میں رامسوامی شمال میں گارڈن روڈ اور کنتونمنٹ ایریا اور جنوب میں جمیلہ اسٹریٹ واقع ہے ماما پارسی ، اسکول اور تبت مارکٹ ایک دوسرے کے سامنے واقع ہے اس علاقے میں زیادہ تر اراضی پارسی کمیونٹی کی ہے اسی علاقے میں سینٹ اینڈریوز چرچ بھی واقع ہے ان ہی کوارٹرز میں بی وی ایس پارسی اور این جے وی اسکول واقع ہے اسی علاقے نشاط سینیما ، سابقہ ناز سنیما، اور پلازہ سینیما واقع ہیں جن مین سے ناز سنیما اور پلازہ سنیما توڑے جاچکے ہیں جبکہ ناز سنیما اب مارکیٹ میں تبدیل کئے جاچکے ہیںرام سوامی کوارٹرز                                     یہ کراچی شہر کا قدیم علاقہ ہے اس کا رقبہ 8ایکڑ ہے قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں زیادہتر ہندو آباد تھے رامسوامی کے شمال مغرب میں نشتر روڈ ، جنوب میں جمیلہ اسٹریٹ اور مشرق میں مشاملی واقع ہےگارڈن کوارٹرز                             گارڈن کوارٹرز دوحصوں میں تقسیم ہیں جو گارڈن ایسٹ اور ویسٹ کے نام سے موسوم ہیں ان کی کیفیت اس طرح سے ہےگارڈن ایسٹ یہ علاقہ گاندھی گارڈن سے تین ہٹی کی جانب جاتے ہوئے لارنس روڈ کے دائیں ہاتھ پر واقع ہے اس کا رقبہ 176ایکڑ ہےگارڈن ویسٹ کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد  یہاں بڑے بڑے رہائیشی کھیلنے کے میدان اور پارک تیار کئے گئے تھے یہاں قانون کے مطابق دومنزلہ کوٹھی تعمیر کرنے کی اجازت تھی قیام پاکستان کے بعد 1968 پانچ منزلہ فلیٹ تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اس علاقے میں 1988 کے بعد دوبار ہ پابندی عائد کردیگئیگارڈن ویسٹ۔۔ گاندھی گارڈ ن سے تین ہٹی تک لیاری ندی اورلارنس روڈ کا درمیانہ علاقہ ہے اس کا رقبہ 248ایکڑ ہے قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں دو فلور ملز اور صنعتی پلاٹ بنائے گئے تھے اس وقت ان کا نام و نشان تک موجود نہیں ہیںریلوے کوارٹرز
سول لائینزیہ صدر بازار کے جنوب و مشرق میں واقع ہیں اس علاقے کی حدود میں فیرئیر ہال فیرئیرگارڈن کراچی کلب میٹرو پول ہوٹل
واقع ہیں اس کا رقبہ 233.3 مربع ایکڑ ہے
سرائے کوارٹرز ۔ پاکستان چوک اورایم اے جناح روڈیہ بنیادی طور پر بندر روڈ ، کچہری روڈ اور میکلوڈ روڈ کے درمیان کا علاقہ ہے جسے سرائے روڈ کہا جاتا ہے یہ ایک قدیم نام ہے سابقہ ووڈ یا موجودہ تالپور اسٹریٹ سے صدرتک جانے والا فیریر روڈ سرائے کوارٹر کے درمیان سے ان کوارٹرز کو دوحصو ں میں تقسیم کرتا ہے یہیں پے سندھ مدرستہ السلام واقع ہے۔صدر بازار یہ کراچی کا سب سے قدیم بازار ہے اس کا رقبہ 163.5ایکڑ ہے اسے صدر بازار کوارٹر بھی کہا جاتا ہے وکٹوریہ روڈ ایلفنسٹن اسٹریٹ ، نیپئیر اسٹریٹ اور پریڈی اسٹریٹ یہاں کی اہم ترین شاہراہیں ہیں یہاں پر ایمپریس مارکیٹ اور جہانگر پارک موجودہےمارکیٹ کوارٹرز یہ بند روڈ پر ڈنسو ہال اورلکشمی بلڈنگ کے عقب میں واقع ہے اس کے شمال مین نیپئیر کوارٹرز جنوب میں بندر
روڈ کوارٹرزاورمشرق میں بندروڈ گزرتا ہے
لارنس کوارٹرزلارنس کوارٹرز کا علاقہ132.6 ایکڑ پر واقع ہے ان کوارٹرز کے مشرق میں لارنس ( موجودہ نشتر) روڈ مغرب میں لیاری ندی شمال میں لو لین واقع ہے ابتدائی دور میں اس علاقے کی زمین 1920میں زراعت کے لئے دی گئی تھی اس کے بعد اس علاقہ کے ساتھ موجود عثمان آباد کو صنعتی علاقہ قرار دیا گیا ۔ جہاں آج بھی کچھ صنعتی ادارے قائم ہیں ۔غلام حسین قاسم کوارٹرزغلام حسین کوارٹرز کوکھارادربھی کہا جاتا ہے اس کا رقبہ ہے 24.37 ایکڑ ہے میری ویدر ٹاورز کے سامنے واقع ہے اس علاقے کے شمال و مغرب میں اولڈ ٹاؤن اور بند ر روڈ کوارٹرز واقع ہیںوادھے مل اودھ رام کوارٹرزیہ علاقہ ایک کونسلر وادھو مل اودھا رام کے نام سے منسوب ہے اس کارقبہ 27.12 ایکڑ پر محیط ہے یہ لارنس روڈ ، بندرروڈ نیپئیر روڈ اور مشن روڈ کے درمیان واقع ہےفیریر ٹاؤنسول لائینز اور کلفٹن کوارٹرز کے درمیان فیریر ٹاؤن واقع ہے یہ سر بارٹل فیر ئیر کے نام سے موسوم ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں بڑے بڑے بنگلے تعمیر کئے گئے تھے لیکن اب ان بنگلوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر لی گئی ہیںکلفٹن
فیرئیر ٹاؤن کے بعدساحل سمندر تک کلفٹن کوارٹرز واقع ہیں قیام پاکستان سے قبل اس علاقے کے کچھ حصے کو ترقی دی گئی تھایہا ں پر پارسی آبادی بہت تھی اس کے بالکل سامنے باتھ آئی لینڈ واقع ہے باقی علاقہ دلدلی اور غیر آبادتھا قیام پاکستان کے بعد 1954میں KDA نے اس علاقے کو ترقی دے کر کہکشاں کے نام سے آباد کردیا
کراچی کی تاریخ اور مزید معلومات حاصل کرنے کے لیئے ملاحظہ کیجیے
ویب سائٹkarachi-apna.blogspot.com
 زلزلوں اور سیلابوں کی زد میں رہنے والے اس خطے میں کراچی کا نیا جنم اس طرح سے ہوا کہ جب بلوچستان کے ساحل پر حب ندی کے کنارے تاجروں کی بندرگاہ کھڑک بندر قدرتی آفات کا شکار ہونے لگی اور وہاں مٹی اس قدر جمع ہو گئی کہ جہاز رانی ممکن ہی نہ رہی تو تاجروں کی اس بستی کے سربراہ سیٹھ بھوجومل نے اپنی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لئے نئے تجارتی مرکز اور مقام کی تلاش کا آغاز کیا سیٹھ بھوجومل کی نگاہ انتخاب کراچی کی بندرگاہ بنی جہاں اسوقت مچھیروں کی بستی موجود تھی جو کراچی کا ماضی بھول کر محض مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے سیٹھ بھوجومل نے کراچی کی ازسر نو تعمیر یا آبادکاری کی یا تجارتی منڈی بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے ملازموں اور دیگر تاجروں کے ہمراہ کراچی کے مقام پر آبسا سیٹھ بھوجومل کو ایک طرح سے جدید کراچی کا ابتدائی آبادکار تو کہا جاسکتا ہے مگر جدید کراچی کا بانی اس لئے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کی اہمیت کو سب سے پہلے اس خطے میں آنے والے انگریز تاجروں اور سروئیروں نے سمجھا تھا اور انہوں نے کراچی پر قبضے اور اس کو اپنا مرکز بنانے کے لئے پلاننگ کا آغاز کردیا اسی دور میں بسیٹھ بھوجومل کراچی کے مقام پر اپنی منڈی قائم کررہا تھا انگریز سائینسدان کراچی کا سروے کررہے تھے 1774 میں اب سے دو سو تیس برس قبل انگلستان سے بمبعی سے ایک بحری مہم خلیج فارس اور بحیرہ ہند کی بندرگاہوں کو تلاش کرنے کے لئے روانہ کی گئی جس کی قیادت مسٹر پاسکل کررہے تھے جو تین بحری جہازوں پر مشتمل تھی مسٹر پاسکل کی زیر قیادت یہ جہاز کراچی بھی پہنچے مسٹر پاسکل نے اس شہر کو اپنے نقشے میں شامل کیا مسٹر پاسکل نے اپنی رپورٹ میں اسکندرآعظم کی افواج کا بھی تذکرہ کیا جو واپس یونان جانے کے لئے کراچی کے مقام پر مقیم ہوئیں تھیں اس وقت کراچی کو کروکالاKrokalaکے نام سے پکارا جاتا تھاکراچی کی پارسی بستیاں اور عبادت گاہیں
انگریزوں کی آمد سے قبل بھی کرا چی میں پارسی تاجر آبادتھے اور کاروبار کررہے تھے 1839میں کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد اور 1843میں نئے اور جدید کراچی کی تعمیر شروع ہوجانے کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ پارسیوں نے اپنے رہنماؤں ایڈل جی ڈنشاسپاری والا جہانگیر کوٹھاری والا،ڈوباش اور کٹرک خاندانوں کی زیر قیادت اپنے محلے آباد کئے ان میں سے صدر میں پہلا محلہ پریڈی اسٹریٹ پر آباد کیا گیا اس کے بعد ایم اے جناح روڈ پر واقع   مشہور پارسی کالونی بنائی گئی جہاں متمول پارسیوں نے اپنے رہائیش قائم کی باتھ آئی لینڈ میں بھی پارسیوں کی بڑی آبادی مقیم تھی جبکہ قدیم شہر کراچی میں پارسیوں نے مختلف مقامات پر اپنی کالونیاں بسائیں ہیں (
۱)صدر میں ریگل کے قریب ( ۲) ایم اے جناح روڈ پر تھیو سو فیکل ہال کے عقب میں اپارٹمنٹ( ۳)پاکستان چوک پر پارسیوں کے فلیٹ جو کہ سیٹھ ڈوسا بھائی میروانجی کے نام پے موسوم ہے جہاں پر پارسیوں کی مذہبی عبادت گاہ بھی ہے اس کے بعد دوسرا محلہ ڈیفنس اور محمودآباد کے درمیان ہی نیو پارسی کالونی قائم کی گئی۔
ٍ کراچی میں پارسیوں کی پانچ وقت کی عبادات کے لئے پارسیوں کی دو عبادت گاہیں ہیں ایک صدر میں دوسری پاکستان چوک پر واقع ہے ان دونوں کا اتظام آواری ہوٹل کے بہرام ڈی آواری سنبھالے ہوئے ہیں کراچی میں پارسیوں کی مرکزی عبادت گاہ صدر میں فریر اسٹریٹ پر قائم ہے یہ سب سے پہلے1849 میں تعمیر کی گئی پھر اس کی دوبارہ تعمیرو توسیع 1875 میں پارسی کمیونٹی کے اہم ترین رہنما نے کروائی تھی اس کی تعمیر کے تمام اخراجات بہرانہ فیملی نے برداشت کئے تھے قیام پاکستان کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی اور محمودآباد کے درمیان پارسی کالونی آباد کی گئی جہاں آتشکدہ کے ساتھ ہی ساتھ پارسیوں کی تدفین اور آخری رسومات کے لئے مینارہ خاموشی بھی قائم ہے
References                
                                              گ
۔گجراتی۔
                  یہ زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد میں بولی اور سمجھی جاتی ہے  کراچی سے گجراتی زبان کے مختلف  اخبارات شائع  کیئے جاتے ہیں ۔
 مثلا ملت گجراتی جو مشہور صحافی عثمان ساتی  شائع کرتے ہیں اس کے علاوہ ڈان گجراتی مشہور ڈان گروپ کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے۔
گوجری۔
               یہ کوہستان کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے بتایا جاتا ہے کہ یہ کوہستانی زبان ہی کی ایک شاخ ہے۔

                                           
                                         
                                         ل
لاہور۔
لاڑکانہ۔
لاسی۔ 
             ۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے لاسی زبان دراصل سندھی اور بلوچی کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے اور بلوچستان کے ضلع کھیترن میں مقیم کھیترانی قبیلے کی زبان ہے اس طرح یہ پاکستان کی ان زبانوں میں سے ایک  ہے جو صرف ایک قبیلے کی زبان ہے ۔
لنڈی کوتل
لسبیلہ
لہیہ
پاکستان
پولینڈ
پاکستانی اقلیتیں 


سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان میں مندرجہ زیل اقلیتیں موجود ہیں جن کی نوعیت اس طرح سے ہے
پارسی         
بدھ مذہب۔
جین مت
ہندو
عیسائی
سکھہ
ماضی میں پاکستان کے عوام کی اکثریت،کبھی پارسیت ، کبھی بدھ مت کبھی جین مت ، کبھی ہندو مت اورکبھی یہودیت کی اثیر رہی ہے جن کی نوعیت مختلف ادوار میں مختلف ہی رہی ہے  تفصیلی مضمون آگے ملاجظہ کیجیے۔
ہندو مت پاکستان میں ہندو مت یا ہندو  مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں مقیم ہیں اگر چہ کہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول نئے صوبے گلت بلتستان اورکشمیر اورمیں موجود ہیں مگر پاکستان کے صوبے سندھ میں اور سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے

پارسی         
بدھ مذہب۔
جین مت
ہندو
عیسائی
سکھہ

 
۔ پنجابی
                 صوبہ پنجاب  میں زیادہ تر اور  پاکستان کے تمام ہی علاقوں میں پنجابی زبان کے بولنے والے اور سمجحنے والے موجود ہیں ۔ پنجابی زبان میں بہت سے اخبارات اور رساءل بحی شائع کیئے جاتے ہیں
پنجاب صوبہ
 ۔ پشتو۔
                 صوبہ پختونخواہ میں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے اگر چہ کے مختلف علاقوں میں اس کا لہجہ دیگر زبانوں کی مانند تبدیل ہوجاتا ہے  پشتو صوبہ پختونخواہ کے علاوہ پاکستان کے دیگرصوبوں پنجاب، بلوچستان سندھ اور بہت سے  شہروں کراچی ،حیدراباد  میں بولی جاتی ہے
پشتونخواہ صوبہ
پیشاور

 

پارسی مذہب
کے اثرات پاکستان کے  تمام ہی صوبوں پے پڑے ہیں مگر بلوچستان اور سندھ پر زیادہ پڑے کیونکہ یہ دونوں صوبے قدیم ایرانی مملکت کا حصہ تھے آج بھی پاکستان مین مختلف قبائل کے قدیم رسومات کا اگر جائزہ لیا جائَے تو یہ امر سامنے آحائے گا کہ ان کا کہیں نہ کہیں پارسیت سے گہرا تعلق تھا جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں مختلف قبائل میں سچ کو جانچنے کے لئے آگ پر چلنے کا دستور آج بھی موجود ہے یہ دراصل پارسی مذہب کا حصہ ہے

پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہم ترین اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے بھی ہیں اگر چہ کہ پارسی یازرتشتی مذہب دنیا کا سب سے قدیم عالمی مذہب سمجھا جاتا ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے جو مذہب اس وقت باقی ہے وہ پارسی مذہب ہے 
دنیا کا سب سے قدیم مذ ہب پارسی مذہب ہے جس کو ایک طرح سے مذاہب کی ماں کہا جاتا ہے
پاکستان کی اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے اہم حیثیت رکھتے ہیں پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے اگرچے پارسی مذہب کے ماننے والوں کی تعدادا بہت کم ہے اتنی کم کہ ان کو آٹے میں نمک ہی کہا جاسکتا ہے مگر یہ ہر شعبہ زندگی میں اس قدر متحرک ہیں کہ عملی طور پر یہ پاکستانی برادری میں نمک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیںیوں تو پارسی برادری تمام پاکستان میں مقیم ہے مگر ان کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے ان کی دو عبادت گاہیں اور قبرستان بھی کراچی میں موجود ہیں یہ بڑا ہی دلچسپ اور حیر ت ناک انکشاف ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کے علاقوں میں آج سے دو ہزار سال قبل بھی مقیم تھے بقول خان عبدالغفار خان یاباچا خان کہ پٹھان ماضی میں پارسی مذہب کے ماننے والے تھے مگر گردش ایام کے نتیجے میں ان کی تعداد میں کمی آتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صرف مختلف عمارتوں کے آثار ہی ان کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کے کبھی یہ بھی اس دشت کے مکیں تھے بحر حال اس وقت پاکستانیت کے حوالے سے پارسی مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں مضمون پیش خدمت ہے یہ پاکستان کی تاریخ اور پاکستان میں مقیم مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں کے بارے مین اس سلسلے کی پہلی قسط ہے اس حوالے سے قارئین کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
 تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اب سے تین ہزار سال قبل پارسی مذہب کے مانے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے ایشیا کے حوالے سے جب بھی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں پارسیوں کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلاچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان مین باقی رہ گئے ہیں )یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سندھ کی ریاست جس کو محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا ایران کی بادشاہت کو خرا ج ادا کرتی تھی او رایران کی ماتحت ریاست تصور کی جاتی تھی مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران(یہ بات مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ کبھی یہ علاقے خود مختار یا آزاد تھے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ہمیشہ ہی یہ علاقے ارد گرد کی طاقتور ریاستوں کا حصہ بنے رہے ہیں ) غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا کیانی خاندان کے ایک دوسرے حکمران سام کامرکز افغانستان کے ایک دوسرے صوبے فرح میں تھا یہاں پر آج بھی ایسے آثار موجودہیں جنہیں سام کے مرکز کے کھنڈرات کہا جاتا ہے انگریز مورخ جی پی ٹیٹ اپنی کتاب سیستان میں لکھتے ہیں کہ آج کل یہاں پر افغانوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جو کہ اپنے آپ کو رستم کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں اگرچے کے اب لوگ ان کو ا سحاق زئی کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو ساک زئی کہتے ہیں افغانستان کے اہم ترین شہر بلغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارسی مذہب کا اہم ترین اور مقدس شہر تھا اس وقت اس علاقے کو ایرانی باختر کہتے تھے بلخ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پر پارسی مذہب کے بانی عظیم زرتشت کو قتل کیا گیا تھاجبکہ قدیم ایرانی شاہی خاندان کیانی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے ہی تھا ان کا دارلخلافہ بلغ تھا یہ شہر بعد میں مغلوں اور تیمور کی سپاہ کے ہاتھوں تباہ اور برباد ہو گیااس کے کھنڈرات پر موجودہ شہر مزار شریف کی بنیادیں قائم ہیں ایران کے ایک دوسرے شاہی خاندان ہنجامنشی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے بتایا جاتا ہے اسی طرح شیر از شہر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ایک بہت بڑا اور اہم ترین آتشکدہ قائم تھا پارسی مذہب کے قدیم ترین رہنما آخش کو قرار دیاجاتاہے یہ زرتشت سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے بنیادی اصول اورضوابط انہی بزرگ ہستی آخش نے ترتیب دئے تھے حضرت آخش کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو آزر آخش کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب پارسی مذہب میں ترامیم کے زریعے تبدیلیاں واقع ہو گئیں اور بہت سی ہدایت مسخ کردیں گئیں توحضرت زرتشت نے (جو کہ پارسی روایات کے مطابق اب سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے)پارسی مذہب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اس مقصد کے لئے انہوں نے اصلاحی تحریک شروع کی اس تحریک کا مقصد اپنی قوم کی اصلاح اور خدائے واحد پر ایمان لانا تھا زرتشت کی تعلیمات کے مطابق مادے کے یہ چاروں عناصر صرف قدرت کے مظاہر ہیں اس لئے ان کا صرف احترام کرنا چاہیے اسی لئے بعض علما اسلام زرتشت کی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ زرتشت کی تعلیمات میں توحید ربانی کی موجودگی کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مقدس ہستیوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جن کو نبی یا پیغمبر کہا جاسکتا ہے (مگرچونکہ ان کی تعلیمات اس وقت ہمارے سامنے خالص صورت میں موجودنہیں ہیں اس لئے اس رائے کے اظہارپر وہ احتیاط کرتے ہیں ) یہ بات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر بعض قدیم علماء پارسیوں کو اہل کتاب تصور کرتے تھے اور اسی بنیاد پر پارسیوں سے جزیہ بھی لیا گیا تھا عظیم زرتشت کی تعلیمات کا نام ژند بیان کیا گیا ہے جس کی شرح اوستا کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ا س کے بعض حصے اب تک محفوظ ہیں اور یہ ہی پارسی مذہب کی اساس ہیں اس وقت پارسیوں کی مذہبی کتاب گاتھا کے نام سے موسوم کی جاتی ہے ایران کے قدیم صوبے جبال اور موجودہ ایرانی صوبے آزربائیجان میں( جو کہ آج کل وسطی ایشیائی ریاست آزربائیجان اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے )کے قدیم ترین شہر شیز میں پارسی مذہب کی سب سے قدیم ترین عبادت گاہ موجود تھی بعض پارسی روائتوں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے عظیم رہنما زردتشت آزربائیجان کے شہر یورمیاہ میں ہوئی جو کہ یورومیاہ جھیل کے کنارے پر واقع ہے اسی لئے پارسیوں کے لئے یہ شہر قدیم زمانے میں اور آج بھی بہت مقدس جانا جاتا ہے شیز شہر میں اس حوالے سے جو آتش گاہ قائم تھی وہ بہت قدیم اور متبر ک تھی تاریخ دان یہ زکر کرتے ہیں کہ اس آتش کدے کی آگ کو پارسیو ں کے عظیم مفکر دانشور اور مذہبی پیشوا زر تشت نے جلائی تھی اس آتش کدے کا نام آزر گشنسپ تھا پارسی اُس کا بہت احترام کرتے تھے مشہور تاریخ دان مسعودی لکھتے ہیں کہ تمام ساسانی بادشاہ تخت نشین ہونے کے بعد اپنے دارلخلافہ مدائین (جس کے آثار اب بغداد شہر کے قریب ہیں) سے پاپیادہ زائیر بن کر شیز شہر کے آتش کدے میں حاضر ہوتے تھے کہا جاتا ہے کہ شیز شہر کے اس آتش کدہ سے تمام دیگر شہروں کے آتش کدوں میں آگ بھڑکا ئی جاتی تھی شیز شہر کے اس آتشکدے کے علاوہ دو اور آتشکدے بھی تھے جو کے پارسیوں کے لئے انتہائی متبرک تھے ان میں آزر بزرین مہر نیشا پور شہر کے شمال مغرب میں کوہستان ریوند میں واقع تھا اور ان تینوں میں اہم تر آزر فربگ تھا اُس کے محل وقوع کے بارے میں مورخین کی رائے میں اختلاف ہے مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی ایرانی حکومت کے صوبے کابلستان (موجودہ افغانستان) میں واقع تھی یہ تین آتشکدے وہ تھے جن کی آگ سے دیگر آتشکدوں کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔
اسی طرح قزوین شہر کے قریب ہی پارسیوں کے ایک قدیم معبد کے آثار کسی زمانے میں دیکھے جاسکتے تھے اسی طرح پاکستان کے بے شمار شہروں میں پارسی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ قائم تھیں پارسی کیلنڈر عیسوی اور ہجری کیلنڈر کی مانند بارہ مہینوں میں تقسیم ہے ان مہینوں کے نام پارسی مذہب کی مقدس ہستیوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں دن میں پانچ وقت کی عبادت کا تصور ان کے یہاں بھی موجود ہے پارسی مذہب کی مذہہبی رسومات کی ادائیگی کی زمے داری ان کے یہاں ایک قوم کے سپرد ہے جو کے قدیم دور سے یہ انجام دے رہیں ہیںیہ قوم ماگی کہلاتی ہے اس قوم کے افراد مگ یامغ کہے جاتے ہیں ہیپروفیسر آرتھر اپنی کتاب ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸ میں لکھتے ہیں کے مجوس یا میغاں دراصل میڈیا کے ایک قبیلے یا اس کی قبیلے کی خاص جماعت کا نام تھا اوستا میں یہ مذہب علماء مذہب آزروان کے قدیم نام سے مذکور ہیں لیکن اشکانیوں اور ساسانیوں کے زمانے میں وہ مغ کہلاتے تھے اس وقت دنیا بھر میں پارسی مذہب کی تمام مذہبی رسومات کی ادائگی انہی مگ یا مغوں کے پاس ہے دنیا میں جہاں بھی پارسی مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں ان میں تمام عبادتوں کی ادائیگی یہ ہی مگ یا مغ انجام دیتے ہیں جب کہ اس وقت پارسی مذہب کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھارت کے صوبے گجرات کے شہر ایرانشہر میں ہے جہاں پران مگوں کی تربیت اور تعلم کی درس گاہ موجود ہے
اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ساتھ پارسی مذہب کے ماننے والوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر پارسی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے جس کے بعد ان کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ ایران سے ہجرت کرجائیں اس سے قبل ایرانی تاجر موجودہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے اور ان کی کاروباری روابط قائم تھے مگر اب ان کی ہندوستان آمد کا مقصد مکمل طور پر رہائیش اور بود و باشت اختیار کرنا تھی اُس مقصد کے لئے انہوں نے اب سے چودہ سو سال قبل بھارتی گجرات میں پونا، بمبئی اورسورت میں آباد کاری کی جب انگریزوں نے سورت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاخ قائم کی تو اس کے ابتدائی کارکن دو پارسی تھے بھارتی صوبے گجرات سے پارسی تاجرچین کے مختلف شہروں ہانگ کانگ، کینٹین اور دیگر شہروں میں تجارت کرنے کے لئے گئے اور پھر وہیں بس گئے ۔
پھرجب کراچی کی بندرگاہ آباد ہونے لگی اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کے شہر آباد ہونے لگے تو اس وقت ان مقامات پر پارسی تاجروں نے اپنے کاروباری مراکز قائم کرنا شروع کردئے مگر کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد 1839 میں پارسی تاجروں نے اس شہر کو اپنا مضبوط تجارتی مرکز بنانا شروع کردیا تجارت کے ساتھ ساتھ پارسی برادری نے اپنی روایات کے مطابق سماجی اور عوامی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا جس کے نتیجے میں اِس نئے بسنے والے شہر کراچی کے عوام دیگر شہروں کے مقابلے میں بہتر بودو باش حاصل کرتے چلے گئے۔
جمشید نسروانجی جنہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے تھے اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے یہ جمشید نسروانجی کا اہم ترین کارنامہ ہے جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی اس کے پڑوس میں پارسی کالونی کاسموپولیٹن سوسائٹی اور دیگر سوسائٹیاں آباد کیں گئیں تھیں ۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشاکاآتاہے ۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دئے ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی اس ڈسپینسری کا نقشہ ایک انگریز جیمز اسٹریجنز نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا تھا ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع آج بھی یہ عمارت کراچی کی اہم تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے بھاری مقدار میں رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج کہا جانے لگا کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دئے تھے اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک انہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت قائم کی جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے سندھ اور بمبعی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا یہ عمارت آج بھی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے جمشید نسروانجی کے علاوہ کراچی کی پارسی برادری کی اہم ترین شخصیت رستم سدھوا تھے جو کے کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں قیام پاکستان کے بعد بھی پارسی برادری کی جانب سے عوام کی خدمت کاسلسلہ جاری رہا آج بھی کراچی کے اہم ترین ترقیاتی منصوبوں میں پارسی برادری کی جانب سے اہم کردار ادا کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کے اہم اور بڑے تاجروں میں بہرام ڈی آواری کا نام لیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آواری ہیں جنہوں نے کشتی رانی کے بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا یہ بات بڑے اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہرام ڈی آواری اپنی قوم کی ترقی کے ساتھ تمام پاکستان قوم کے لئے بھی کوشان ہیں ان کی خدمات کا دائیرہ بہت وسیع ہے
اس وقت پارسی برادری کے اہم ترین رہنماوں میں ارد شیر کاوس جی ہیپی مینوالا انکلسریا اور ایم پی بھنڈارہ شامل ہیں مگر پارسی برادری کے بعض اہم ترین رہنماوں نے بتایا کہ اب پارسی برادری پاکستان بھرمیں بہرام ڈی آواری کی قیادت میں متحد ہو چکی ہے پارسی برادی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کہ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی برادر ی ان برادریوں میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہیں ہیں اور فوج سمیت پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پارسی تاجر مقیم ہیں مگر ان کی بڑی تعداد اب سے پچاس برس قبل پاکستان اور بھارت میں مقیم تھی مگر اب پارسیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا اور کینیڈا اور یورپ میں منتقل ہو چکی ہے جب کہ لندن جینیوا اور اور نیویارک میں میں ان کے ہوٹل کھل چکے ہیں جہاں کھانوں کے شوقین حضرات مزیدار پارسی کھانوں کی تلاش میں آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ہمارے یہاں اکثر گھروں میں جو پلاؤ پکایا جاتا ہے وہ دراصل ایرانی کھانا ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان اور پاکستان میں ایران سے آیا تھا اور اب اس طرح سے پلاؤ کا استعمال ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ مقامی کھانوں میں شا مل ہو۔
کچھ مدت قبل تک پارسی مذہب کے ماننے والوں کی مذہبی کتابیں گجراتی زبان میں ملتیں تھیں مگر پارسیوں کی ویب سائٹ دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا ہے کہ پارسیوں کا لٹریچر اور مذہبی کتابیؓ فارسی زبان میں بھی موجود ہے پاکستان میں اگرچے کہ پارسیوں کی تعداد بہت کم ہے مگر یہ بات بڑے یقین اور اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے اپنے درخشندہ ماضی کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔



پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں


پاکستان کی اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے اہم حیثیت رکھتے ہیں پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے اگرچے پارسی مذہب کے ماننے والوں کی تعدادا بہت کم ہے اتنی کم کہ ان کو آٹے میں نمک ہی کہا جاسکتا ہے مگر یہ ہر شعبہ زندگی میں اس قدر متحرک ہیں کہ عملی طور پر یہ پاکستانی برادری میں نمک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیںیوں تو پارسی برادری تمام پاکستان میں مقیم ہے مگر ان کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے ان کی دو عبادت گاہیں اور قبرستان بھی کراچی میں موجود ہیں یہ بڑا ہی دلچسپ اور حیر ت ناک انکشاف ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کے علاقوں میں آج سے دو ہزار سال قبل بھی مقیم تھے بقول خان عبدالغفار خان یاباچا خان کہ پٹھان ماضی میں پارسی مذہب کے ماننے والے تھے مگر گردش ایام کے نتیجے میں ان کی تعداد میں کمی آتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صرف مختلف عمارتوں کے آثار ہی ان کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کے کبھی یہ بھی اس دشت کے مکیں تھے بحر حال اس وقت پاکستانیت کے حوالے سے پارسی مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں مضمون پیش خدمت ہے یہ پاکستان کی تاریخ اور پاکستان میں مقیم مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں کے بارے مین اس سلسلے کی پہلی قسط ہے اس حوالے سے قارئین کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہم ترین اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے بھی ہیں اگر چہ کہ پارسی یازرتشتیمذہب دنیا کا سب سے قدیم عالمی مذہب سمجھا جاتا ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے جو مذہب اس وقت باقی ہے وہ پارسی مذہب ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اب سے تین ہزار سال قبل پارسی مذہب کے مانے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے ایشیا کے حوالے سے جب بھی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں پارسیوں کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلاچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان مین باقی رہ گئے ہیں )یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سندھ کی ریاست جس کو محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا ایران کی بادشاہت کو خرا ج ادا کرتی تھی او رایران کی ماتحت ریاست تصور کی جاتی تھی مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران(یہ بات مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ کبھی یہ علاقے خود مختار یا آزاد تھے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ہمیشہ ہی یہ علاقے ارد گرد کی طاقتور ریاستوں کا حصہ بنے رہے ہیں ) غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا کیانی خاندان کے ایک دوسرے حکمران سام کامرکز افغانستان کے ایک دوسرے صوبے فرح میں تھا یہاں پر آج بھی ایسے آثار موجودہیں جنہیں سام کے مرکز کے کھنڈرات کہا جاتا ہے انگریز مورخ جی پی ٹیٹ اپنی کتاب سیستان میں لکھتے ہیں کہ آج کل یہاں پر افغانوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جو کہ اپنے آپ کو رستم کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں اگرچے کے اب لوگ ان کو ا سحاق زئی کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو ساک زئی کہتے ہیں افغانستان کے اہم ترین شہر بلغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارسی مذہب کا اہم ترین اور مقدس شہر تھا اس وقت اس علاقے کو ایرانی باختر کہتے تھے بلخ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پر پارسی مذہب کے بانی عظیم زرتشت کو قتل کیا گیا تھاجبکہ قدیم ایرانی شاہی خاندان کیانی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے ہی تھا ان کا دارلخلافہ بلغ تھا یہ شہر بعد میں مغلوں اور تیمور کی سپاہ کے ہاتھوں تباہ اور برباد ہو گیااس کے کھنڈرات پر موجودہ شہر مزار شریف کی بنیادیں قائم ہیں ایران کے ایک دوسرے شاہی خاندان ہنجامنشی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے بتایا جاتا ہے اسی طرح شیر از شہر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ایک بہت بڑا اور اہم ترین آتشکدہ قائم تھا پارسی مذہب کے قدیم ترین رہنما آخش کو قرار دیاجاتاہے یہ زرتشت سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے بنیادی اصول اورضوابط انہی بزرگ ہستی آخش نے ترتیب دئے تھے حضرت آخش کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو آزر آخش کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب پارسی مذہب میں ترامیم کے زریعے تبدیلیاں واقع ہو گئیں اور بہت سی ہدایت مسخ کردیں گئیں توحضرت زرتشت نے (جو کہ پارسی روایات کے مطابق اب سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے)پارسی مذہب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اس مقصد کے لئے انہوں نے اصلاحی تحریک شروع کی اس تحریک کا مقصد اپنی قوم کی اصلاح اور خدائے واحد پر ایمان لانا تھا زرتشت کی تعلیمات کے مطابق مادے کے یہ چاروں عناصر صرف قدرت کے مظاہر ہیں اس لئے ان کا صرف احترام کرنا چاہیے اسی لئے بعض علما اسلام زرتشت کی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ زرتشت کی تعلیمات میں توحید ربانی کی موجودگی کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مقدس ہستیوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جن کو نبی یا پیغمبر کہا جاسکتا ہے (مگرچونکہ ان کی تعلیمات اس وقت ہمارے سامنے خالص صورت میں موجودنہیں ہیں اس لئے اس رائے کے اظہارپر وہ احتیاط کرتے ہیں ) یہ بات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر بعض قدیم علماء پارسیوں کو اہل کتاب تصور کرتے تھے اور اسی بنیاد پر پارسیوں سے جزیہ بھی لیا گیا تھا عظیم زرتشت کی تعلیمات کا نام ژند بیان کیا گیا ہے جس کی شرح اوستا کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ا س کے بعض حصے اب تک محفوظ ہیں اور یہ ہی پارسی مذہب کی اساس ہیں اس وقت پارسیوں کی مذہبی کتاب گاتھا کے نام سے موسوم کی جاتی ہے ایران کے قدیم صوبے جبال اور موجودہ ایرانی صوبے آزربائیجان میں( جو کہ آج کل وسطی ایشیائی ریاست آزربائیجان اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے )کے قدیم ترین شہر شیز میں پارسی مذہب کی سب سے قدیم ترین عبادت گاہ موجود تھی بعض پارسی روائتوں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے عظیم رہنما زردتشت آزربائیجان کے شہر یورمیاہ میں ہوئی جو کہ یورومیاہ جھیل کے کنارے پر واقع ہے اسی لئے پارسیوں کے لئے یہ شہر قدیم زمانے میں اور آج بھی بہت مقدس جانا جاتا ہے شیز شہر میں اس حوالے سے جو آتش گاہ قائم تھی وہ بہت قدیم اور متبر ک تھی تاریخ دان یہ زکر کرتے ہیں کہ اس آتش کدے کی آگ کو پارسیو ں کے عظیم مفکر دانشور اور مذہبی پیشوا زر تشت نے جلائی تھی اس آتش کدے کا نام آزر گشنسپ تھا پارسی اُس کا بہت احترام کرتے تھے مشہور تاریخ دان مسعودی لکھتے ہیں کہ تمام ساسانی بادشاہ تخت نشین ہونے کے بعد اپنے دارلخلافہ مدائین (جس کے آثار اب بغداد شہر کے قریب ہیں) سے پاپیادہ زائیر بن کر شیز شہر کے آتش کدے میں حاضر ہوتے تھے کہا جاتا ہے کہ شیز شہر کے اس آتش کدہ سے تمام دیگر شہروں کے آتش کدوں میں آگ بھڑکا ئی جاتی تھی شیز شہر کے اس آتشکدے کے علاوہ دو اور آتشکدے بھی تھے جو کے پارسیوں کے لئے انتہائی متبرک تھے ان میں آزر بزرین مہر نیشا پور شہر کے شمال مغرب میں کوہستان ریوند میں واقع تھا اور ان تینوں میں اہم تر آزر فربگ تھا اُس کے محل وقوع کے بارے میں مورخین کی رائے میں اختلاف ہے مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی ایرانی حکومت کے صوبے کابلستان (موجودہ افغانستان) میں واقع تھی یہ تین آتشکدے وہ تھے جن کی آگ سے دیگر آتشکدوں کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔
اسی طرح قزوین شہر کے قریب ہی پارسیوں کے ایک قدیم معبد کے آثار کسی زمانے میں دیکھے جاسکتے تھے اسی طرح پاکستان کے بے شمار شہروں میں پارسی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ قائم تھیں پارسی کیلنڈر عیسوی اور ہجری کیلنڈر کی مانند بارہ مہینوں میں تقسیم ہے ان مہینوں کے نام پارسی مذہب کی مقدس ہستیوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں دن میں پانچ وقت کی عبادت کا تصور ان کے یہاں بھی موجود ہے پارسی مذہب کی مذہہبی رسومات کی ادائیگی کی زمے داری ان کے یہاں ایک قوم کے سپرد ہے جو کے قدیم دور سے یہ انجام دے رہیں ہیںیہ قوم ماگی کہلاتی ہے اس قوم کے افراد مگ یامغ کہے جاتے ہیں ہیپروفیسر آرتھر اپنی کتاب ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸ میں لکھتے ہیں کے مجوس یا میغاں دراصل میڈیا کے ایک قبیلے یا اس کی قبیلے کی خاص جماعت کا نام تھا اوستا میں یہ مذہب علماء مذہب آزروان کے قدیم نام سے مذکور ہیں لیکن اشکانیوں اور ساسانیوں کے زمانے میں وہ مغ کہلاتے تھے اس وقت دنیا بھر میں پارسی مذہب کی تمام مذہبی رسومات کی ادائگی انہی مگ یا مغوں کے پاس ہے دنیا میں جہاں بھی پارسی مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں ان میں تمام عبادتوں کی ادائیگی یہ ہی مگ یا مغ انجام دیتے ہیں جب کہ اس وقت پارسی مذہب کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھارت کے صوبے گجرات کے شہر ایرانشہر میں ہے جہاں پران مگوں کی تربیت اور تعلم کی درس گاہ موجود ہے
اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ساتھ پارسی مذہب کے ماننے والوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر پارسی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے جس کے بعد ان کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ ایران سے ہجرت کرجائیں اس سے قبل ایرانی تاجر موجودہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے اور ان کی کاروباری روابط قائم تھے مگر اب ان کی ہندوستان آمد کا مقصد مکمل طور پر رہائیش اور بود و باشت اختیار کرنا تھی اُس مقصد کے لئے انہوں نے اب سے چودہ سو سال قبل بھارتی گجرات میں پونا، بمبئی اورسورت میں آباد کاری کی جب انگریزوں نے سورت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاخ قائم کی تو اس کے ابتدائی کارکن دو پارسی تھے بھارتی صوبے گجرات سے پارسی تاجرچین کے مختلف شہروں ہانگ کانگ، کینٹین اور دیگر شہروں میں تجارت کرنے کے لئے گئے اور پھر وہیں بس گئے ۔
پھرجب کراچی کی بندرگاہ آباد ہونے لگی اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کے شہر آباد ہونے لگے تو اس وقت ان مقامات پر پارسی تاجروں نے اپنے کاروباری مراکز قائم کرنا شروع کردئے مگر کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد 1839 میں پارسی تاجروں نے اس شہر کو اپنا مضبوط تجارتی مرکز بنانا شروع کردیا تجارت کے ساتھ ساتھ پارسی برادری نے اپنی روایات کے مطابق سماجی اور عوامی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا جس کے نتیجے میں اِس نئے بسنے والے شہر کراچی کے عوام دیگر شہروں کے مقابلے میں بہتر بودو باش حاصل کرتے چلے گئے۔
جمشید نسروانجی جنہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے تھے اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے یہ جمشید نسروانجی کا اہم ترین کارنامہ ہے جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی اس کے پڑوس میں پارسی کالونی کاسموپولیٹن سوسائٹی اور دیگر سوسائٹیاں آباد کیں گئیں تھیں ۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشاکاآتاہے ۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دئے ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی اس ڈسپینسری کا نقشہ ایک انگریز جیمز اسٹریجنز نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا تھا ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع آج بھی یہ عمارت کراچی کی اہم تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے بھاری مقدار میں رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج کہا جانے لگا کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دئے تھے اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک انہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت قائم کی جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے سندھ اور بمبعی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا یہ عمارت آج بھی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے جمشید نسروانجی کے علاوہ کراچی کی پارسی برادری کی اہم ترین شخصیت رستم سدھوا تھے جو کے کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں قیام پاکستان کے بعد بھی پارسی برادری کی جانب سے عوام کی خدمت کاسلسلہ جاری رہا آج بھی کراچی کے اہم ترین ترقیاتی منصوبوں میں پارسی برادری کی جانب سے اہم کردار ادا کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کے اہم اور بڑے تاجروں میں بہرام ڈی آواری کا نام لیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آواری ہیں جنہوں نے کشتی رانی کے بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا یہ بات بڑے اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہرام ڈی آواری اپنی قوم کی ترقی کے ساتھ تمام پاکستان قوم کے لئے بھی کوشان ہیں ان کی خدمات کا دائیرہ بہت وسیع ہے
اس وقت پارسی برادری کے اہم ترین رہنماوں میں ارد شیر کاوس جی ہیپی مینوالا انکلسریا اور ایم پی بھنڈارہ شامل ہیں مگر پارسی برادری کے بعض اہم ترین رہنماوں نے بتایا کہ اب پارسی برادری پاکستان بھرمیں بہرام ڈی آواری کی قیادت میں متحد ہو چکی ہے پارسی برادی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کہ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی برادر ی ان برادریوں میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہیں ہیں اور فوج سمیت پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پارسی تاجر مقیم ہیں مگر ان کی بڑی تعداد اب سے پچاس برس قبل پاکستان اور بھارت میں مقیم تھی مگر اب پارسیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا اور کینیڈا اور یورپ میں منتقل ہو چکی ہے جب کہ لندن جینیوا اور اور نیویارک میں میں ان کے ہوٹل کھل چکے ہیں جہاں کھانوں کے شوقین حضرات مزیدار پارسی کھانوں کی تلاش میں آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ہمارے یہاں اکثر گھروں میں جو پلاؤ پکایا جاتا ہے وہ دراصل ایرانی کھانا ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان اور پاکستان میں ایران سے آیا تھا اور اب اس طرح سے پلاؤ کا استعمال ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ مقامی کھانوں میں شا مل ہو۔
کچھ مدت قبل تک پارسی مذہب کے ماننے والوں کی مذہبی کتابیں گجراتی زبان میں ملتیں تھیں مگر پارسیوں کی ویب سائٹ دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا ہے کہ پارسیوں کا ا لٹریچر اور مذہبی کتابیؓ فارسی زبان میں بھی موجود ہے پاکستان میں اگرچے کہ پارسیوں کی تعداد بہت کم ہے مگر یہ بات بڑے یقین اور اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے اپنے درخشندہ ماضی کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔


حوالہ جات:۔۔۔۔۔
مولانا ابولااعلیٰ مودودی تفہیم القران جلد سوم
مولانا ابولکلام آزاد البیرونی اور جغرافیہ عالم
مولانا ابولکلام آزاد ترجمان القران
جی پی ٹیٹ سیستان
پروفیسر آرتھرکرسٹن سین ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸
دائیرہ معارف الاسلامی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷
جرمن مورخ ہر ٹسلف ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی فہرست
ہیرلڈ لیم کورش اعظم
اجمل کمال کراچی کی کہانی نمبر1 احمد حسین صدیقی گوہر بحیرہ عرب
سید قاسم محمود مکمل اسلامی انسائکلوپیڈیا
ولیم ایل لبینگر انسائکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد دوم
                             

                                           ب
بھاولپور
بھاولنگر
بے نظیر بھٹو
بلوچستان            ت

تنزانیہ
تیونس
تلہ گننگ
تربیلہ
                                       ٹ
 ٹھٹہ
                                       ث
                                      ج
جاپان
جرمنی
جلال پورجٹاں
                                       چ
                                        
                                      ح   
حیدرآباد
                                        خ
خضدار
خیر پور
خیر پور ٹامے والی
                                        د
دادو
دہواری۔
                ان زبانوں کے علاوہ بھی بہت سی زبانیں پاکستان میں بولی جاتی ہیں جن میں بلوچستان میں بولی جانے والی زبان دہواری، جو ایک طرح  سے بگڑی ہوئی فارسی کہلاتی ہے۔
                                      ڈ
                        ڈیرہ بگٹی
ڈیرہ غازی خان
ڈیرہ مراد جمالی
ڈیرہ اسمعائیل خان
                                         ذ
٫ذوالقرنین یاخورس
حضرت ذوالقرنین یاخورس یا سائیرس اور پارسی مذہب کے ماننے والوں کے نذدیک اگر چہ کہ صرف ایک ایرانی بادشاہ کہلاتے تحے مگر
مولانا ابولااعلیٰ مودودی تفہیم القران جلد سوم میں سورۃ کہف کے حواشی میں صفحہ نمبر44 پر مختلف حوالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح سے تذکرہ کرتے ہیں کہ
نزول قران سے پہلے جتنے بھی مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں خورس ہی کے اندر ذوالقرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذوالقرنین قرار دینے کے لئے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے تاہم دوسرا کوئی فاتح قران کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔مولانا ابولااعلیٰ مودودی کی تحریر کے مطابق دوسرا کوئی فاتح قران کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے اس بنیاد پر آسانی کے ساتھ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ قدیم پارسی مذہب کیا تھا ؟اور اس کی بنیاد کیا تھی؟ اور کس طرح بعد میں اس کے اصولوں میں تبدیلی واقع ہوئی یہ ہی وجہ ہے کہ بعض عالم دین پارسی مذہب کے ماننے والوں کو اہل کتاب تصور کرتے ہیںَ        

                                                        ر
راولپنڈی 
روانڈا
رسالپور
روجھان جمالی
روجھان مزاری
                                         
                                          س
سکھر
         
                                          سرائیکی۔ 
                  ۔ پاکستان کی اہم ترین علاقائی زبانوں میں سے ایک ہے قدیم تاریخ دان اور اردو زبان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو زبان بنیادی طور پر پہلے سرائیکی زبان ہی کا جزو تھی مگر بعد میں تاریخی سیاسی اور جغرافیائی عوامل  کے باعث اردو نے اپنی علیحدہ شناخت منوا لی  ۔
شنا
          یہ زبان صوبہ گلگت بلتستان میں او ر شمالی عالقہ جات کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے  گلگت اور بلتستان میں بڑی بڑی پہاڑی وادیوں میں مقیم آبادیوں میں شنا ذبان کے بہت سے لہجہ بولے جاتے ہیں جن میں سے کچھ اس طرح سے ہیں شنا خاص۔ شنا بگروٹی۔شناکوہستانی، یہ پشتو زبان سے متاثر ہے ۔ 
ہندکو۔ ۔
           یہ صوبہ پختونخواہ کے علاقے ہزارہ جات میں زیادہ تر بول جاتی ہے جبکہ اس کے بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد سندھ کے شہر کراچی میں بھی مقیم ہیں   لسانیات کے بعض ماہراین سرائیکی اور ہندکو کے مابین کافی لسانی  قربت تلاش کرتے ہیں  جبکہ بعض لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبہ پختونخواہ میں بولی جانے والی کوہاٹی زبان دراصل ہندکو زبان ہی کی ایک شکل ہے ۔
                                                           ش
م

                               قائداعظم محمد علی جناح
ایک مضمون

کو ئٹہ میں یومِ آزادی بڑے طمطراق سے منایا گیا۔جی چا ہتا تھا کہ الگ تھلگ پڑا رہوں اس لئے دن بھر گھر پر گذارا۔سہ پہر کے بعد چلتان ہوٹل میں اپنے پرانے دوست کرنل اے۔بی ۔ایف شاہ سے ملنے گیا جو سرحدی علاقوں اور ریاستوں کی وزارت کے سکریٹری ہیں تاکہ ان سے قائداعظم کی بحالی صحت کاذکر کروں۔روبصحت ہونے کی وجہ میرے نزدیک کوئٹہ کی کم بلندی تھی۔تاہم میں اور ڈاکٹر شاہ دونوں اس بارے میں متفق تھے کہ چندہفتوں تک غالباً صحت مندی کی رفتار رک جائے گی اور ممکن ہے کہ ہمیں اور بھی نیچے کراچی جانا پڑے۔
16اگست کو ایکس رے لیا گیا اور خون کا معائنہ ہوا۔ایکس رے کا نتیجہ تسلی بخش تھا۔ایکس ریز کی تصویر سے پتہ چلتا تھا کہ اب حالت بہتر ہے۔خون کے سرخ ذرات بیس فیصدی بڑھ چکے تھے اور سفید ذرات کی مقدار گھٹ کر اصل حالت پر آگئی تھی۔خون کا غلیظ مواد 50فی صدی کم ہو گیا۔شام کے وقت جب ہم نے قائداعظم کو بتا یا کہ ایکس ریز کی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ پھیپڑے کی حالت چالیس فی صدی پہلے سے بہتر ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ سو فی صدی بہتر ہونے تک کتنا عرصہ لگے گا۔اس سوال سے ہم کچھ گھبرا سے گئے کیوں کہ ہمیں معلوم تھاکہ ان کا مکمل طور پر تندرست ہونا ممکن نہیں۔اگر حالات موافق ہوئے تو ان کی بیماری کو دو تین سال تک بڑہنے سے روکا جاسکتا ہے،لیکن ہمیں یقین تھا کہ وہ سفر کر کے سرد مقامات پر جانے کے قابل نہ ہوسکیں گے اور دائم المریض ہو کر رہ جائیں گے۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ وہ بعض ضروری تقریبوں میں شریک ہو سکیں لیکن بیشتر وقت وہ صاحب فراش ہی رہیں گے۔اصل صورت تو یہ تھی مگر ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ہم نے انہیں بتایا کہ اگر آپ کی حالت میں اسی طرح سے اصلاح ہوتی رہی تو بہت ممکن ہے کہ آپ چند ہفتوں میں مکمل طور پر صحتیاب ہو جائیں۔ان کا رو بصحت ہونا بھی معجزے سے کم نہ تھا اور زندگی میں معجزے کبھی کبھی ہو ہی جایا کرتے ہیں۔
جب میں نے پہلی بار قائداعظم کا معائنہ کیا تو باوجود اس کے کہ وہ بہت کمزور تھے اور زیادہ کام نہیں کر سکتے تھے ان کے سونے کے کمرے میں فائلوں کا ایک انبار لگا ہوا تھا۔ان کی حالت کا جائزہ لینے کے بعد میں نے انہیں دماغی کام چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن یہ دیکھ کر کہ دس دن سے انہیں بخار نہیں ہے،غذا باقاعدہ ہضم ہورہی ہے اور طاقت بحال ہورہی ہے،ہم نے سوچا کہ ایسے شخص کے لئے جس کا دماغ اتنی تیزی سے چلتا ہو مصروف رہنا بے حد ضروری ہے تاکہ اپنی بیماری کے متعلق سوچنے کی مہلت نہ ملے۔ان کی ساری زندگی سخت مصروفیتوں میں گذری تھی، اس لئے ان کے دماغ کو معطل رکھناان کے لئے بجائے مفید ہونے کے سخت مضر تھا۔چنانچہ میں نے چند اخبارات کا انتظام کردیا اور اس بات کا اہتمام کیا کہ ان کے پاس صرف وہی معاملات جائیں جن کا ان تک پہنچنا نا گزیر ہو،ساتھ ہی وہ معاملات ہو گز نہ پہنچنے پائیں جو ان کی پریشانی کا موجب بنیں۔
جب وہ زیارت میں تھے تو ہم نے انہیں اجازت دے رکھی تھی کہ وہ کمرے کی افسردہ کردینے والی فضا سے بچنے کے لئے باہر برآمدے میں بستر بچھوا لیا کریں۔برآمدے میں نکلنے سے ان کی خاصی تفریح ہو جاتی تھی اور وہ دوپہر کا اکثر حصہ وہیں گزارتے جب وہ کوئٹہ پہنچے تو اس قابل ہو گئے تھے کہ بغیرتکان کے گھنٹہ بھر روز کام کر سکیں۔ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی کہ ہم نے انہیں کام کرنے سے پورے طور پر منع نہیں کیا تھا۔ملا قاتیوں کو ملنے کی اجازت نہ تھی لیکن خاص خاص موقعوں پر خاص خاص حضرات مثلاً مسٹر اصفہانی،مسٹر لیاقت علی خان اور مسٹر غضنفر علی خاں کو اجازت تھی کہ قا ئد اعظم سے تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرسکیں۔مسٹر محمد علی انہیں دو مر تبہ ملے۔اگست کے تیسرے ہفتے میں دوسری ملاقات کے موقعہ پر مسٹر محمد علی نے مجھے بتا یا کہ قائداعظم کی حالت میں نمایاں اصلاح نظر آتی ہے۔وہ جب زیارت میں تھے تو وہ ایک فقرہ بھی بولتے تو ان کا سانس پھول جاتا اور بڑے نحیف دکھائی دیتے لیکن اب وہ بے تکان گفتگو کرسکتے تھے۔اور اب چہرے پر بھی پہلے کی نسبت کچھ تازگی تھی۔دماغی طور پر پہلے کی طرح مستعد نظر آتے تھے۔روزانہ دیکھ کر شاید ان کی صحت کی خوشگوار تبدیلی اتنی زیادہ نظر نہ آتی ہو۔چند دن بعد مسٹر غلام محمد قائداعظم سے ملے۔انہوں نے بھی یہی کہا کہ قائداعظم کی صحت کے متعلق جو خبریں سننے میں آتی ہیں ان کی حالت ان سے بدر جہا بہتر ہے۔کوئٹہ سے واپس آنے کے بعد وزیر مالیات نے جو پر امید تقریر ریڈیوں پر نشر کی اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا،کیونکہ جب وہ قائد اعظم سے ملے تو ان کی صحت بہت اچھی تھی۔اگست کے تیسرے ہفتے کے آخر میں وہ کافی خوراک ہضم کر لیتے تھے۔خانساماں ان کے لئے نئی نئی چیزیں تیار کرتا تھا اور وہ رغبت سے کھا لیتے تھے۔سپاغتی انہیں بہت مرغوب تھی اور پھلوں میں آلو بخارا اور انگور پسند کرتے تھے جو وہ ناشتے کے بعد کھاتے تھے ۔ایک دن محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا کہ قائداعظم نے سوجی کے حلوے کے متعلق پوچھا ہے۔مجھے کچھ تامل تھا،لیکن چوں کہ قائداعظم حلوہ بہت پسند کرتے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح نے یقین دلایا کہ حلوہ بہت ہلکا ہوگا اور تھوڑا سا خالص مکھن ڈال کر تیار کیا جائیگا میں نے کہا کہ تھوڑا سا حلوہ کھالینے میں کوئی ہرج نہ ہوگا۔انہوں نے پھر مجھے یہ بتا یا کہ ان کے بھائی پوریوں سے حلوہ کھانا چاہتے ہیں۔
اور اس کے لئے اجازت طلب کرتے ہیں۔میں نے ان سے کہا کہ پوریاں ان کے لئے بھاری غذا ہے اور پہلے پہل انہیں حلوہ ہی کھانا چاہئے۔بعد میں جب میں قائد اعظم سے ملا تو میں نے انہیں بھی یہی مشورہ دیا لیکن انہوں نے کہا کہ جن پوریوں کا میں ذکر کرتا ہوں وہ اور طرح کی ہوتی ہیں،عام بازاری پوریوں جیسی نہیں۔پھر وہ سمجھانے لگے کہ یہ پوریاں تیار کیوں کرکی جاتی ہیں۔اس سے میں نے اندازہ کیا کہ قائداعظم پوریوں سے کتنی رغبت رکھتے ہیں،اور اجازت دیتے دیتے رہ گیا۔میں سمجھا کہ انہوں نے میرا مشورہ مان لیا۔حلوہ کے متعلق یہ سن کر کہ بیگم اے -آر-خان خاص احتیاط سے تیار کریں گی تو مجھے قدرے اطمینان ہوا۔شام کے وقت جب ہم ریذیڈنسی پہنچے تو مس جناح نے ہمیں بتایا کہ قائداعظم نے حلوہ بڑی رغبت سے کھایا۔میں نے پوچھا،’’کیا ساتھ پوریاں بھی کھائیں تھیں‘‘؟جواب میں وہ مسکرادیں۔جس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان سے رہا نہیں گیا۔میں نے دل میں کہا کہ کھا ہی لی ہیں تو خدا کرے ہضم ہو جائیں۔
جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو قائد اعظم نے مسکرا کر ہمارے سلام کا جواب دیا اور معمول سے زیادہ خوش نظر آئے۔میں نے پوچھا،’’فرمائیے حلوا کیسا رہا‘‘۔ انہوں نے جواب دیا،’’خوب رغبت سے کھایا ‘‘۔پوریوں کے ذکر پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے،’’ایک آدھ پوری بھی کھائی اور وہ گراں نہیں گذری اور امید ہے کہ معمول کے مطابق رات کا کھانا بھی کھاؤں گا،،۔میں نے حلوہ اور پوری ہضم کر لینے پر ان کے معدہ کے متعلق اطمینان کا اظہار کیا اور اصل بیماری کے متعلق ان سے جو اختلاف ہوا تھا اس کا تذکرہ کیا۔وہ اپنی تمام تکلیفوں کا موجب معدہ کو سمجھتے تھے لیکن میں پھیپھڑوں کو ان کا باعث قرار دیتا تھا۔ان کے معدے کے ٹھیک طور پر کام کرنے سے ظاہر ہوا کہ میری تشخیص درست تھی۔خوش قسمتی کی بات ہے کہ ان کی اشتہا اور ہاضمے کی قوت برقرار رہی کیوں کہ ایسی بیماری میں اصلاح کا تمام تر دار و مدار غذا پر ہے۔
ہ

ے
اقلیتی برادری
ی
۔یہودیت ۔اسی طرح سے پاکستان کے صوبہ سرحد میں بہت سے قبائل اس طرح کے ملیں گے جو اپنے آپ کو بنی اسرائل کے ان قبائل کی باقیات قرار دیتے ہیں جن کو اسرائیل کی تباہی کے بعد فاتحین نے اسرائیل یاسر زمین فلسطین سے جلا وطن کردیا تھا جس کے بعد رفتہ رفتہ وہ قبائل پہلے ایران پھر ایران سے افغانستان اور پھر صوبہ سرحد آئے جب کہ جیوش اٹلس میں صوبہ سندھ کی قدیم بندرگاہ دیبل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دیبل کی بندرگاہ یہودی تاجروں کی بہت بڑی مرکز تھی اسرائیل سے بنی اسرائیل کے تاجر زمانہ قدیم میں بذریعہ بحری جہاز سندھ اور بلوچستان کی بندرگاہوں دیبل ، اورمارہ ،پسنی پر مستقل آتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے بیشتر شہر اور بندرگاہوں میں یہودیوں کے تجارتی مراکز اور عبادت گاہیں قائم ہو گئیں تھیں جس کی وجہ سے زمانہ قدیم میں پاکستان کے بعض علاقوں میں یہودیت کے ماننے والے بھی بڑی تعداد میں مقیم تھے.



 قارئین و ناظرین سے التماس

انسائکلو پیڈیا آف پاکستان چونکہ اس وقت ایڈیٹنگ کے مراحل سے گزر رہا ہے اس لیئے اس میں لمحہ بہ لمحہ اضافے ہو رہے ہیں  اضافوں تنسیخ  و تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اس لِئے کسی بھی شعبے کا بارے میں نامکمل معلومات کو حتمی نہ سمجھا جائے بلکے توقف کیا جائے اور انسائکلو پیڈیا آف پاکستان کے بلاگ کا دوبارہ جائزہ لیا جائے ہوسکتا ہے دوبارہ اس کمی کو دور کرکے نئے  مواد کے اضافے کے ساتھ آپ  درست معلومات تک رسائی حاصل کرلیں

1 comment: